130۔ قصّہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب سے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ204

130۔ قصّہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب
سے

قصّہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب
سے
لپٹا ہؤا تھا آپ ہی اپنی صلیب سے
مَیں خود بھی اپنے آپ کو پہچانتا نہ
تھا
ناحق گزر رہا تھا وہ میرے قریب سے
اے اہل شہر! شہر کے دُکھڑوں کی داستاں
لکھوا لیا کرو کسی اچھّے ادیب سے
آئیں خبر فروش تو ان سے ملاؤ ہاتھ
مقتل میں جا کے صلح بھی کر لو رقیب
سے
!
اب آئنوں میں شہر کی قسمت پڑھا کرو
ہیں صورتیں نئی نئی، چہرے عجیب سے
اب کر سکو تو آپ ہی اس کا کرو علاج
درماں کی کچھ امید نہ رکھو طبیب سے
لکھا گیا ہے دار پہ جس باوفا کا نام
اس کے نصیب پوچھ کسی خوش نصیب سے
کافر لکھا ہے نام ہمارا سرِ صلیب
ملتا ہے ایسا مرتبہ مضطرؔ! نصیب سے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں