126۔ تصدیق چاہتا ہے اگر، آفتاب لا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ199۔200

126۔ تصدیق چاہتا ہے اگر، آفتاب لا

تصدیق چاہتا ہے اگر، آفتاب لا
منہ بولتا ثبوت کوئی ہمرکاب لا
اظہار کی چتا میں سلگنے کی تاب لا
شب ماہتاب بانٹ، سحر آفتاب لا
اتنا تو ہو تُو اُس کے لیے بے قرار
ہو
تُو چاند ہے تو چاندنی کا اضطراب لا
جس کا عدالتوں میں حوالہ دیا گیا
وہ اقتباس مَیں بھی پڑھوں لا کتاب لا
خلقت کھڑی ہے کاسۂ حیرت لیے ہوئے
اے حسنِ تام! حسن کو زیرِ نقاب لا
اتنا تو دیکھ آ رہا ہوں کتنی دور سے
اے بے مقام! میرے سفر کا ثواب لا
تحفہ تو پیش کر کوئی منصورِ وقت کو
پتھر اگر نہیں ہے تو برگِ گلاب لا
کب سے گھرا ہؤ ا ہوں صدا کے حصار میں
میرے مجیب! میری فغاں کا جواب لا
پیاسا ہوں، مجھ کو بخش دے نہرِ فراتِ
غم
اس دشتِ بے سحاب میں کوئی سحاب لا
پاؤں میں اس کو روندتا پھرتا رہا ہے
تُو
اللّٰہ کی زمین کا مضطرؔ! حساب لا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں