149۔ مضطرؔ سے تو کس لیے خفا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ228

149۔ مضطرؔ سے تو کس لیے خفا ہے

مضطرؔ سے تو کس لیے خفا ہے
اس نے تو تجھے خدا کہا ہے
رستوں سے پرے جو راستہ ہے
تیری ہی طرف تو جا رہا ہے
بیٹھا ہے یہ کون راکھ مل کر
ہنستا ہے نہ منہ سے بولتا ہے
زنجیرِ صدا کا شور سن کر
آہٹ کا اسیر کانپتا ہے
پتھر پہ برس رہے ہیں پتھر
ایسے میں کسے پکارتا ہے
سوہنی٭؎ کا ہے منتظر مہینوال
دریا بھی غضب چڑھا ہؤا ہے
منزل ہے نہ اس کا کوئی مسکن
انساں کا قدم اکھڑ گیا ہے
کشتی کو ہے ڈوبنے کی خواہش
ساحل بھی قریب آ گیا ہے
چہروں سے سجی ہوئی ہے سولی
مضطرؔ ہے کہ دم بخود کھڑا ہے
٭۔۔۔۔۔۔پنجابی تلفّظ کے ساتھ پڑھا جائے۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں