153۔ ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ233

153۔ ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں

ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں
بجھی عشق کی آگ دوپہر میں
برہنہ بدن ہیں سبھی شہر میں
نہیں فرق کچھ مَلْک اور مَہر میں
فقیروں کے چھپّر سلامت رہے
محل بَہ گئے ایک ہی لہر میں
مَیں سقراطِ َنو ہوں، مرے واسطے
ملا دیجیے انگبیں زہر میں
ضرورت ہے آج اس کی اخبار کو
اُڑا دیجیے یہ خبر شہر میں
زمانے کی پہنائیوں سے نہ ڈر
خدا آپ آباد ہے دہر میں
بہت زور ماریں گے مضطرؔ! رقیب
غزل ہو سکے گی نہ اس بحر میں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں