184۔ اشک در اشک سیاحت کی ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ274

184۔ اشک
در اشک سیاحت کی ہے

اشک
در اشک سیاحت کی ہے
گھومنے
پھرنے کی عادت کی ہے
بر
سرِ دار محبت کی ہے
ہر
کہیں تیری حکایت کی ہے
تجھ
کو سوچا ہے، تجھے چاہا ہے
جب
بھی کی تجھ سے محبت کی ہے
ہم
نے اظہار کی راہیں کھولیں
ہم
نے لفظوں سے بغاوت کی ہے
پاس
آ جاؤ تو سجدہ کر لوں
یہ
گھڑی یوں بھی عبادت کی ہے
منہ
نہ کھلواؤ کہ ہم نے مضطرؔ
!
اب
سے چپ رہنے کی نیّت کی ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں