221۔ سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ329۔330

221۔ سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا

سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا
ساتوں سمندروں کی خیرات لے کے آنا
جب قرب کی قیامت برپا ہو جسم و جاں
میں
دو چار ہجر کے بھی لمحات لے کے آنا
ترتیل سے کریں گے ہر زخم کی تلاوت
آنا تو فرقتوں کی تورات لے کے آنا
پیاسوں کی التجا ہے اے پانیوں کے مالک!
دشتِ نجف میں اب کے برسات لے کے آنا
حالات کا ہمالہ ہے ٹوٹ جانے والا
موسم جو مستقل ہو وہ ساتھ لے کے آنا
اے رات کے مسافر! اس سانولے سفر میں
جو دن کی ہمسفر ہو وہ رات لے کے آنا
داخل نہ ہو سکو گے سچوں کی سلطنت میں
آنا تو کوئی سچی سوغات لے کے آنا
فرقت کے فاصلوں میں اس عہد کی ہے عادت
وہ دن کو چھین لینا جو رات لے کے آنا
جنسِ وفا کو لے کر آئیں جب آنے والے
لازم نہیں ہے ان پر کچھ ساتھ لے کے
آنا
پہچاننے میں مضطرؔ! دقّت نہ ہو کسی
کو
تاریخ کے پرانے صفحات لے کے آنا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں