234۔ جنگل ہوں قدیم خار و خس کا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
349۔350

234۔ جنگل
ہوں قدیم خار و خس کا

جنگل ہوں قدیم خار و خس کا
خمیازہ ہوں باغ کی ہوس کا
پھولوں کا لہو ہے اس کی خوراک
شبنم ہے نچوڑ چاند رس کا
تنہا بھی ہے اور گھرا ہؤا بھی
لمحہ ہے اسیر پیش و پس کا
واعظ کو بھی بحث کی ہے عادت
یاروں کو بھی گفتگو کا چسکا
اک غار میں روشنی ہوئی تھی
قصّہ ہے یہ سینکڑوں برس کا
اشکوں کے چراغ بھی بجھا دو
دروازہ بھی کھول دو قفس کا
لگتا ہے کہ صبح ہو گئی ہے
سورج بھی نیا ہے اس برس کا
کرنوں نے جگا دیا زمیں کو
محتاج تھا قافلہ جرس کا
اندازہ نہیں تھا منزلوں کو
آہستہ رووں کی دسترس کا
آیات کی ہو رہی ہے بارش
نظّارہ ہے دیدنی قفس کا
سب شہر تری گرفت میں ہیں
پنڈی ہو، لہور ہو کہ ڈسکہ
بدلا ہے مکان جب سے مضطرؔ!
رستہ ہی بدل گیا ہے بس کا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں