232۔ تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ345۔346

232۔ تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے

تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے
نظر کی بھیک بھی تجھ سے پکار کر لیتے
وہ راہ چلتوں سے قول و قرار کر لیتے
وفا کا عہد تو ان سے سنوار کر لیتے
اگر نصیب میں لکھی تھی منزلِ مقصود
تو اپنے ساتھ ہمیں بھی سوار کر لیتے
یہ قافلے جو کھڑے ہیں اَنا کی سرحد
پر
کسی بہانے سے سرحد کو پار کر لیتے
نہ کرنا پڑتا کبھی ذکر اور کا ہرگز
تمھارا ذکر اگر ایک بار کر لیتے
گلِ مراد کو نظروں سے چومنے والے
نظر کے زخم تو پہلے شمار کر لیتے
نہ جی کا روگ لگاتے امیر بستی میں
منافع بخش کوئی کاروبار کر لیتے
میں تاج کانٹوں کا خود اپنے سر پہ رکھ
لیتا
مرے حریف مرا انتظار کر لیتے
نظر نہ آتے بگولے کبھی سرِ صحرا
ہَوا کے رُخ کو اگر اختیار کر لیتے
مَیں ایک
ذرّۂ خاکی تھا اور مرے سورج
قریب تھا کہ مجھے ہمکنار کر لیتے
خدا گواہ، نہ تھے اس کے اہل ہم مضطرؔ!
یہ اور بات ہے وہ ہم سے پیار کر لیتے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں