231۔ نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ343۔344

231۔ نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے

نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے
اسے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے
نہیں یوں بھی کہ وہ ملتا نہیں ہے
مگر مجبور بھی اتنا نہیں ہے
رکیں تو آپ رک جاتے ہیں دریا
مگر ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے
وہ سَچّا بھی ہے، سُچّا بھی، حسیں بھی
اسے دیکھو اگر دیکھا نہیں ہے
اسے چاہا کرو تنہائیوں میں
وہ سب کا ہے فقط میرا نہیں ہے
اسے معلوم ہے ساری حقیقت
اگرچہ منہ سے کچھ کہتا نہیں ہے
وہی زندوں میں ہے اب ایک زندہ
وہ مر کر بھی کبھی مرتا نہیں ہے
اسے اتنی حقارت سے نہ دیکھو
اکیلا ہے، مگر تنہا نہیں ہے
اسی کے نام کا سکّہ چلے گا
اِسے تم نے کبھی سوچا نہیں ہے
بتا دوں گا مَیں سارا حال اس کو
کوئی اس کے سوا چارہ نہیں ہے
یونہی اک فاصلہ سا ہو گیا ہے
وگرنہ تم سے کچھ پردہ نہیں ہے
جواب اس خط کا بھی آیا ہے اِمشب
جسے ہم نے ابھی لکھا نہیں ہے
تماشائی بھی اب تو کہہ رہے ہیں
یہ سودا اس قدر سستا نہیں ہے
چھپا سکتا نہیں خوشبو کو، مضطر!ؔ
یہ تھانے دار نے سوچا نہیں ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں