258۔ ناداں اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ381۔382

258۔ ناداں
اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے

ناداں اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے
ہم نے دکھا دیا تھا حوالہ کتاب سے
یہ اور بات ہے کہ ابھی مطمئن نہ تھا
خاموش تو وہ ہو گیا تھا اس جواب سے
آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر دیکھتی نہ
تھیں
کوئی بڑا عذاب نہ تھا اس عذاب سے
لہروں میں چھپ گئے تھے کنارے کٹے ہوئے
بچ کر نکل گیا تھا سفینہ سراب سے
اللّٰہ بھیج سایۂ ابرِ رواں کوئی
سنولا گئے ہیں دھوپ میں چہرے گلاب سے
کچھ بند پانیوں سے تعلق نہیں رہا
سیراب ہو کے آئے ہیں رودِ چناب سے
کچھ تو جواب دیجیے، شبنم ہی رولیے
پھولوں نے احتجاج کیا ہے جناب سے
کوئی تمیز اچھے برے کی نہیں رہی
دھندلا گئی ہیں سرحدیں اس انقلاب سے
میلی نگاہ سے انھیں دیکھا نہ ہو کہیں
کملا گئے ہیں گُل نِگَہِ انتخاب سے
آئینہ میرے کانپتے ہاتھوں سے گر گیا
مَیں بال بال بچ گیا یوم الحساب سے
مضطرؔ کے نام پر خطِ تنسیخ کھینچ کر
خود کو بھی تم نے کر دیا خارج نصاب
سے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں