281۔ سحر پسند تو سب ہیں، سحر چشیدہ نہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ415۔416

281۔ سحر
پسند تو سب ہیں، سحر چشیدہ نہیں

سحر
پسند تو سب ہیں، سحر چشیدہ نہیں
امیر
شہر میں کوئی بھی شب گزیدہ نہیں
لگے
ہو کرنے تو سارے گلے کرو ان سے
دو،
تین، چار نہیں اور چیدہ چیدہ نہیں
اسے
یہ زعم کہ مالک ہے وہ خدائی کا
خدا
کا شکر ہے واعظ خدارسیدہ نہیں
ازل
سے کہتے چلے آئے ہیں حریف اسے
جو
بات تم نے کہی ہے وہ ناشنیدہ نہیں
یہ
وہ کتاب ہے جو عمر بھر اترتی ہے
مرا
یقین ہے یہ سرسری عقیدہ نہیں
تمھارے
ہاں بھی تو آیا تھا عہد کا یوسف
یہ
اور بات ہے تم نے اسے خریدا نہیں
جو
ملنا چاہو تو اس سے ملا بھی سکتے ہیں
ہمارا
اس کا تعلق بہت کشیدہ نہیں
ہمیں
ستایا گیا ہے اگر تو اس کے لیے
ستم
چشیدہ کہو، ہم ستم رسیدہ نہیں
تُو
دستِ ناز سے ان کے دلوں پہ دستک دے
فضا
اگرچہ مکدّر ہے دل کبیدہ نہیں
کسی
کے بت کو بھی ہم تو برا نہیں کہتے
زَباں
دراز نہیں ہم دہن دریدہ نہیں
مَیں
کون ہوں جو کروں دعوئ ثناخوانی
غزل
کہی ہے تری شان میں، قصیدہ نہیں
بغیر
اذن کے غم بھی نہ کھائے گا مضطرؔ
!
ہزار
بھوکا سہی وہ مگر ندیدہ نہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں