290۔ اشک در اشک ابتدا میں کہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
431

290۔ اشک
در اشک ابتدا میں کہیں

اشک
در اشک ابتدا میں کہیں
مضطرب
تھا کوئی ؐ حرا میں کہیں
عشق
تھا معرضِ وفا میں کہیں
رک
گیا جا کے نینوا میں کہیں
ہو
گئے جمع عہد کے آسیب
رقص
ہونے لگا گھٹا میں کہیں
پھر
لہو رنگ ہے زمینِ نجف
زخم
بولے ہیں کربلا میں کہیں
کانپ
اُٹھی ہے وسعتِ کونین
کوئی
آنسو گرا خلا میں کہیں
ہو
رہی ہے سرِ صلیبِ حیا
کشمکش
اشک اور انا میں کہیں
بند
کر دیجیے گا دروازے
جی
نہ اُٹھوں کھلی ہوا میں کہیں
منتظر
ہے کسی بہانے کی
اس
کی بخشش مری خطا میں کہیں
وہ
مرے ہو گئے تھے، مَیں ان کا
مدّتوں
پہلے ابتدا میں کہیں
میں
بھی نازاں ہوں اپنی قسمت پر
میں
بھی ہوں ان کی خاکِ پا میں کہیں
مجھ
کو ڈر ہے کہ فرطِ لذّت سے
گم
نہ ہو جاؤں آشنا میں کہیں
ٹوٹ
جائے نہ رابطہ مضطرؔ
!
عہد
اور عہد کے خدا میں کہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں