294۔ وہ پل صراطِ صدا پار کر ہی جائے گا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ437۔438

294۔ وہ
پل صراطِ صدا پار کر ہی جائے گا

وہ
پل صراطِ صدا پار کر ہی جائے گا
کٹھن
ہے مرحلہ لیکن گزر ہی جائے گا
وصال
رُت میں سما جائے گا دل و جاں میں
سمندروں
میں یہ دریا اُتر ہی جائے گا
اسے
کہو کہ نہ تاریخ سے ملے ہرگز
اگر
ملا تو ندامت سے مر ہی جائے گا
پرانے
سال کو اب ریزہ ریزہ کر ڈالو
کہ
جب بھی جائے گا یہ ٹوٹ کر ہی جائے گا
یہ
شہر نامۂ دل ہے اسے بغور پڑھو
کہ
دن چڑھے تو نظارہ بکھر ہی جائے گا
خدا
کرے کہ ترا دل امیر ہو جائے
زرِ
مراد سے دامن تو بھر ہی جائے گا
اندھیری
رات میں تنہا کبھی نہ چھوڑے گا
سحر
مثال ہے وہ تا سحر ہی جائے گا
کسے
شعورِ سخن ہے، کسے مجالِ نظر
حضورِ
یار فقط نامہ بر ہی جائے گا
اگر
وہ آئے تو ہمراہ لائے ہوش و حواس
وگرنہ
قرب کی لذّت سے مر ہی جائے گا
لرز
رہا ہے ستارہ جو سرحدِ جاں پر
اُجاڑ
آنکھ کو آباد کر ہی جائے گا
اسے
کہو کہ وہ پھرتا رہے خلاؤں میں
اگر
زمین پہ اترا تو ڈر ہی جائے گا
اگر
گیا بھی تو جائے گا منقسم ہو کر
انا
کے دوش پہ کھل کر بکھر ہی جائے گا
ہزار
آئنے دیکھو، گواہ ٹھہراؤ
مکرنے
والا تو مضطرؔ! مکر ہی جائے گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں