297۔ موسم کے مراحل سے گزر جائے گا پانی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ441۔442

297۔ موسم
کے مراحل سے گزر جائے گا پانی

موسم
کے مراحل سے گزر جائے گا پانی
برسے
گا تو کچھ اور اُتر جائے گا پانی
لرزے
گا سرِ چشم اگر فرطِ حیا سے
شبنم
کی طرح رُخ پہ بکھر جائے گا پانی
انکار
کے قطبین پہ سردی ہے بلا کی
نفرت
کے تبسّم سے ٹھٹھر جائے گا پانی
شبنم
ہو، ندامت کا پسینہ ہو کہ آنسو
جتنا
بھی سنوارو گے سنور جائے گا پانی
فرقت
کی صلیب اُس کو اُٹھانی ہی پڑے گی
راتوں
کو نہ جاگے گا تو مر جائے گا پانی
حیران
نگاہوں سے کہو اس کو نہ دیکھیں
آئینہ
ہے آئینوں سے ڈر جائے گا پانی
اس
کو تو بچھڑ کر بھی بچھڑنا نہیں آتا
مل
جائے گا پانی میں جدھر جائے گا پانی
ہے
مونس و غمخوار یہی اس کی ازل سے
دھرتی
سے جدا ہو کے کدھر جائے گا پانی
یوں
جبر و ستم سے اسے رکنا نہیں آتا
روکو
گے تو کچھ اور بپھر جائے گا پانی
برسے
گا سرِ بزمِ وفا ٹوٹ کے مضطرؔ
!
جائے
گا تو اس شوخ کے گھر جائے گا پانی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں