318۔ روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ470

318۔ روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے

روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے
آنکھ بے تماشہ تھی اژدہام سے پہلے
ان کا ہم فقیروں پر یہ بھی ایک احساں
ہے
مسکرا تو دیتے ہیں قتلِ عام سے پہلے
گن رہے ہو کیوں ناحق انتظار کی گھڑیاں
لوٹ کر نہ آئیں گے لوگ شام سے پہلے
بے ادب کی محرومی، سچ تو یہ ہے مخدومی!
مرتبہ یقیں کا ہے احترام سے پہلے
آج کون قاتل ہے اور کون ہے مقتول
فیصلہ تو کر لیجے اہلِ شام سے پہلے
اب تو ہر کسی سے وہ بے سبب بھی ملتے
ہیں
مشکلوں سے ملتے تھے جو غلام سے پہلے
اشک کی صداقت سے محترم ہوئے کتنے
آدمی جو لگتے تھے یوں ہی عام سے پہلے
مجھ سے تو بہر صورت آپ لوگ بہتر ہیں
اپنا نام لکھ لیجے میرے نام سے پہلے
ذکر اک حسیں کا بھی نا گزیر ہے مضطرؔ!
عشق کی کہانی کے اختتام سے پہلے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں