330۔ اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ487

330۔ اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی

اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی
آئنے میں آن کر تصویر آدھی رہ گئی
ہو گئے اہلِ وطن اپنے وطن میں بے وطن
عدل اور انصاف کی توقیر آدھی رہ گئی
اب اُتر بھی آ فلک سے اے مری جاں کی
پناہ
!
ملک آدھا، وادئ کشمیر آدھی رہ گئی
کٹتے کٹتے کٹ گئی تنہائیوں میں زندگی
گھٹتے گھٹتے زلف کی زنجیر آدھی رہ گئی
اس ستمگر کی ہوئی توقیر اتنی شہر میں
شہر بھر کی عزّت و توقیر آدھی رہ گئی
لوگ ناموسِ قلم کو بیچ کر بازار میں
پوچھتے ہیں کس لیے تاثیر آدھی رہ گئی
لٹ گئی عصمت صدا کی، آبرو آواز کی
لفظ بونے ہو گئے، تحریر آدھی رہ گئی
عزّتِ سادات ہی مضطر!ؔ نہیں اس عشق
میں
عزّتِ آواز بھی اے میر!ؔ آدھی رہ گئی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں