332۔ شہر کے ہوں یا گاؤں کے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ489۔490

332۔ شہر کے ہوں یا گاؤں کے

شہر کے ہوں یا گاؤں کے
بیٹے ہیں سب، ماؤں کے
پاؤں ہیں یہ ماؤں کے
ماؤں ٹھنڈی چھاؤں کے
چوم رہے ہیں کانٹوں کو
چھالے میرے پاؤں کے
کوہِ طور محبت کے
یہ ٹیلے صحراؤں کے
روک لیے ہیں شہروں نے
رستے میرے گاؤں کے
تم مالک ہو شہروں کے
ہم ہاری ہیں گاؤں کے
فتوے کٹھ ملّاؤں کے
جوتے میرے پاؤں کے
باتیں عقل کے اندھوں کی
قصّے نابیناؤں کے
سب گھائل ہیں فتووں کے
اَور زخمی ملّاؤں کے
کچھ آزار اسیری کے
کچھ ناسور جفاؤں کے
آہیں چند یتیموں کی
نالے کچھ بیواؤں کے
کچھ آشوب خموشی کا
کچھ بحران صداؤں کے
کچھ گھپلے نادانوں کے
کچھ دھوکے داناؤں کے
کچھ ٹھوٹھے مسکینوں کے
کچھ کشکول گداؤں کے
بھتنے زرد صحافت کے
لے پالک آقاؤں کے
بھوت پریت جہالت کے
جُبّوں اور قباؤں کے
دشمن مری اذانوں کے
قاتل مری صداؤں کے
چشمِ زدن میں خاک ہوئے
رجواڑے راجاؤں کے
صحنِ وطن میں اُترے ہیں
غول کے غول بلاؤں کے
نیّت دیکھ کے موسم کی
دل ڈولے دریاؤں کے
بارے کچھ طوفان رکا
ٹوٹے زور ہواؤں کے
خوش ہیں پتھر کھا کر بھی
عادی نرم غذاؤں کے
پھر پردیس سے آئے ہیں
جھونکے مست ہواؤں کے
یہ سورج اور چاند نہیں
نقش ہیں تیرے پاؤں کے
میری گلیاں الفت کی
میرے شہر وفاؤں کے
کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
ہم محتاج دعاؤں کے
ساون ہے ستّاری کا
موسم نہیں سزاؤں کے
ہم نے پیڑ لگائے ہیں
سایہ دار دعاؤں کے
ایک نظر اس جانب بھی
بخشنہار خطاؤں کے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں