339۔ اسے اندیشہ ہے گِر کر سنبھلنے کا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ501۔502

339۔ اسے اندیشہ ہے گِر کر سنبھلنے کا

اسے اندیشہ ہے گِر کر سنبھلنے کا
یہ آنسو اب نہیں باہر نکلنے کا
اگر خطرہ تھا موسم کے بدلنے کا
ارادہ کیوں کیا تھا ساتھ چلنے کا
ذرا سی بات پر طوفاں کی نیّت کو
بہانہ مل گیا تھا رُخ بدلنے کا
کھلونے پھینک دو باہر دریچے سے
کہ یہ بچہ نہیں اب کے بہلنے کا
ابھی تو جل رہی ہے آگ سینوں میں
ابھی دیکھو گے منظر گھر کے جلنے کا
تمھاری موت کا منظر ہے نادانو!
یہ نظّارہ نہیں سورج کے ڈھلنے کا
دھرے رہ جائیں گے سب عہد اور پیماں
نہیں یہ حادثہ امسال ٹلنے کا
نہ جانے پھول کا انجام کیا ہو گا
کہ اس کا جرم ہے شبنم نگلنے کا
غنیمت ہے ابھی رستے میں کانٹے ہیں
ابھی موسم ہے ننگے پاؤں چلنے کا
میں اپنے آنسوؤں کو پی بھی سکتا ہوں
مجھے آتا ہے فن پتھّر نگلنے کا
میں اپنی ذات میں محصور ہوں مضطرؔ!
کوئی رستہ نہیں باہر نکلنے کا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں