338۔ چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ500

338۔ چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا

چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا
کر لیا خود ہی حادثہ دل کا
دل کے چاروں طرف ہیں دیواریں
کوئی رستہ نہیں رہا دل کا
اپنا چہرہ بھی ساتھ لے جانا
منتظر ہو گا آئنہ دل کا
دیکھیے! جیت کس کی ہوتی ہے
دل سے ہو گا مقابلہ دل کا
دل کی مجبوریاں، معاذ اللّٰہ!
اب نہ کرنا کبھی گلہ دل کا
اس کا نعم البدل نہیں کوئی
ہے تو دل ہے فقط صلہ دل کا
عقل منزل کے دھیان میں گم تھی
لُٹ گیا رہ میں قافلہ دل کا
پی لیا مسکرا کے اشکوں کو
دیکھ کر ہم نے حوصلہ دل کا
کچھ تو ہے درمیان میں حائل
کچھ تو ہے دل سے فاصلہ دل کا
درِ دل تک تو دل کا ساتھ رہا
پھر نہ کوئی پتا چلا دل کا
عقل کیا اس میں مشورہ دے گی
دل پہ چھوڑو معاملہ دل کا
خیریت سے گزر گیا مضطرؔ!
سخت نازک تھا مرحلہ دل کا
مئی،١٩٩٥ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں