359۔ غم ہائے روزگار کی نظروں نے کھا لیاں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ527

359۔ غم
ہائے روزگار کی نظروں نے کھا لیاں

غم ہائے روزگار کی نظروں نے کھا لیاں
آنکھوں کی مستیاں، ترے ہونٹوں کی لالیاں
وہ گالیاں جو رات عدو نے نکالیاں
کیا جانیے کہ کس لیے ہنس ہنس کے کھا
لیاں
اپنے تو اپنے غیر بھی کب رات سو سکے
رو رو کے ہم نے بستیاں سر پر اُٹھا
لیاں
اوجِ فرازِ دار پہ دیپک جلایئے
شمعیں سرِ مژہ تو بہت جگمگا لیاں
مٹی میں مل کے زندۂ جاوید ہو گئیں
وہ صورتیں جو اشک کے شیشوں میں ڈھالیاں
اک شکل چاند سی ہمیں کل خواب میں ملی
پوچھا جو ہم نے نام تو نظریں جھکا لیاں
سائے سے پھر رہے ہیں، کوئی آدمی نہیں
گلیاں پرائے شہر کی ہیں دیکھی بھالیاں
دھونی رما کے بیٹھ گیا در پہ یار کے
مضطرؔ کے کام آ گئیں بے اِعتدالیاں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں