370۔ رت بدلی، سب ماند پڑے ہیں غم کے کاروبار

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
539

370۔ رت
بدلی، سب ماند پڑے ہیں غم کے کاروبار

رت
بدلی، سب ماند پڑے ہیں غم کے کاروبار
دل
آوارہ، غم کا مارا پھرتا ہے بے کار
چاند
چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار
بوٹا
بوٹا جاگ رہا ہے، کلی کلی بیدار
پھونک
پھونک کر پاؤں ر کھے، عقل بڑی ہُشیار
من
مورکھ ہے بات بات پر مرنے کو تیار
نیلی
نیلی، نتھری نتھری آس کی شیتل جھیل
یاد
کی رادھا تیر رہی ہے دور کہیں اس پار
شب
کی آنکھ میں اوس کے آنسو امڈ امڈ کر آئے
چاند
کے رس میں بھیگ رہے ہیں
شبنم کے اسرار
سوکھے
پتےّ ناچ رہے ہیں موت کا پاگل ناچ
سُونی
خلوت گاہوں میں ہے پت جھڑ کی جھنکار
حسن
کی باتیں، عشق کے قصّے، جھوٹ ہیں یارو!جھوٹ
گل
جھوٹا، بلبل بھی جھوٹی، جھوٹا سب سنسار
ہار
اور جیت کے جھگڑوں سے بالا ہے دل کا کھیل
عشق
کا پانسہ جس نے پھینکا اس کی جیت نہ ہار
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں