17۔ پیار سب سے نفرت کسی سے نہیں

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ85۔87

17۔ پیار سب سے نفرت کسی سے نہیں

میر محفل کبھی تھا وہ جانِ جہاں
دیکھ کے جس کو ہر شخص خورسند تھا
نافلہ تھا مسیح کا وہ عالی گہر
اَور فضلِ عمر کا وہ فرزند تھا
ذات اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوئی
کام اس کا زمانے میں موجود ہے
جا کے مغرب میں پیغام حق کا دیا ہے
آج واں کُفر کی راہ مسدُود ہے
زندگی کی چمک سے دَمکتا ہوا
اس کے چہرے پہ کیسا عجب نور تھا
اُس کی ہر بات امید کی روشنی
یاسیت کے اندھیروں سے وہ دور تھا
سلسلہ تھا حوادث کا جاری مگر
یاس کا لفظ بھی لَب پہ آیا نہ تھا
موجزن دَرد کا دل میں دریا مگر
کرب کا اُس کے چہرے پہ سایا نہ تھا
مسکراتا رہا آپ بھی وہ سدا
مسکرانے کی تلقین کرتا رہا
اِس جماعت کو تسکین دیتا رہا
اِس کی راہوں کی تعیین کرتا رہا
اس کی صورت حسیں، اُس کی سیرت حسیں
وہ شگفتہ دہن، وہ کشادہ جبیں
درس اہلِ وفا کو یہی دے گیا
پیار سب سے کسی سے بھی نفرت نہیں
سات سو سال کے بعد مسجد کی پھر
اُس کے ہاتھوں سے رکھی گئی ہے بنا
بہرِ تشنہ لباں اُس نے اسپین میں
چشمۂ فیضِ حق پھر سے جاری کیا
یاد تازہ تھی فضلِ عمر کی ابھی
اک نیاوار تقدیر نے کر دیا
چوٹ تازہ ہوئی زخم رسنے لگے
اک نیا درد دل میں میرے بھر دیا
چیز جس کی تھی واپس وہی لے گیا
کوئی شکووں کا حق بھی ہمارا نہیں
اپنے رب کی رضا پہ ہی راضی ہیں ہم
اس کی ناراضگی تو گوارہ نہیں
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں