16۔ بھول جاؤں میں جسے ایسا تو وہ چہرہ نہ تھا

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ81۔84

16۔ بھول جاؤں میں جسے ایسا تو وہ چہرہ
نہ تھا

دل کی دُنیا میں کبھی ایسا بھی سَنّاٹا
نہ تھا
ہم ہی ساکت ہوگئے تھے وقت تو ٹھہرا
نہ تھا
ہر کوئی اپنی جگہ حیران و ششدر رَہ
گیا
بات معمولی نہ تھی، یہ واقعہ چھوٹا
نہ تھا
یہ بجا! کہ وسوسے بھی دل میں اُٹھتے
تھے مگر
ےوں بھی ہو جائے گا ایسا تو کبھی سوچا
نہ تھا
وسوسے تھے، خوف تھا، ڈربھی تھا، اندیشے
بھی تھے
اتنا روشن چاند پہلے ڈوبتے دیکھا نہ
تھا
حَیف اُس کے واسطے ہم اس قدر جاگے نہ
تھے
جو ہماری فکر میں سُکھ سے کبھی سویا
نہ تھا
ضرب کاری تھی بہت آخر شکستہ ہو گیا
دل ہی تھا پہلو میں پتّھر کا کوئی ٹکڑا
نہ تھا
اُس کے سینے میں اگر ہو دَرد کی دُنیا
تو ہو
اُس کے چہرے پر کسی بھی کرب کا سایہ
نہ تھا
ایک اُس کے دم سے کتنی محفلیں آباد
تھیں
ذات میں اپنی تھا وہ اک انجمن، تنہا
نہ تھا
تھا بہاروں کا پیامی اُس کے چہرے کا
گلاب
مشکلوں کے ریگذاروں میں بھی کُملایا
نہ تھا
وہ ترو تازہ، شگفتہ، خنداں،روشن، دلرُبا
بُھول جاؤں میں جسے ایسا تو وہ چہرہ
نہ تھا
وہ گیا کیا! اعتبارِ زندگی جاتا رہا
لُطف بزمِ ما، نکھارِ زندگی جاتا رہا
میرِ محفل چل دیا، جَانِ جَہاںرُخصت
ہؤا
وہ شَہہِ خوباں، وہ ماہِ مَہ وِشاں
رخصت ہؤا
بَن گئی تقدیر ساز اس کی دُعائے مُستجاب
وہ شبِ ہسپانیہ کا رازداں رخصت ہؤا
جس کے قدموں نے جِلا بخشی تھی اُس کی
خاک کو
اُندلس حیران ہے کہ وہ کہاں رخصت ہؤا
عمر بھر وہ پیار کے ساغر لنڈھاتا چل
دیا
شاہ دل ساقی، سخی پیرِ مغاں رخصت ہؤا
پیار بھی تھا، دلرُبائی بھی تھی، رعنائی
بھی تھی
رونق و تزئینِ بزمِ دوستاں رخصت ہؤا
عجز کی راہوں پہ چل کے پا گیا اَوجِ
کمال
بن کے محبوبِ خدائے دوجہاں رخصت ہؤا
کچھ اشارہ رخصتی کا، نہ وداع کی بات
کی
وہ ہؤا رخصت! پہ بے سان و گماںر خصت
ہؤا
یہ نہیں ہیں شعر، سوزِ زندگی کی ہے
تپک
چار سُو پھیلی ہوئی ہے میرے زخموں کی
مہک
چاند اِک رخصت ہؤا، اِک ماہ پارہ آگیا
جگمگاتا، روشنی دیتا ستارہ آگیا
مطلِع انوار پہ چھائی گھٹا چھٹنے لگی
پھر نظر کے سامنے روشن نظارہ آگیا
بحرِ ظُلمت میں گھرِیں تھیں کشتیاں
کہ ایکدم
سامنے پھر روشنی کا اِک منارہ آگیا
مُصلِح موعود کا اِک اَور فرزندِ جلیل
حالتِ بے چارگی میں بن کے چارہ آگیا
حُسن جس کا آج تک مستور پردے میں رہا
حُسن و خُوبی کو کئے وہ آشکارا آگیا
مرحبا! پھر صاحبِ عزوّ وقار آہی گیا
پھر خُدا کی قدرتوں کا اعتبار آہی گیا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں