54۔ آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ188۔189

54۔ آئینے سے جب تک کہ سامنا نہیں ہوتا


آئینے سے جب تک کہ سامنا نہیں ہوتا
اپنے آپ سے کوئی آشنا نہیں ہوتا
اپنی ذات سے باہر جو نکل نہیں پاتے
اس طرح کے لوگوں میں حوصلہ نہیں ہوتا
عشق کی نظر اس پہ جب تلک نہیں پڑتی
حُسن تو وہ ہوتا ہے دلربا نہیں ہوتا
روح کے روابط میں اِس طرح بھی ہوتا
ہے
فرقتیں تو ہوتی ہیں فاصلہ نہیں ہوتا
ہم سے اہلِ دل بھی یاں ہر کہیں نہیں
ملتے
ہر کوئی بھی تو جاناں آپ سا نہیں ہوتا
ہر نگار کی باتیں دلنشیں نہیں ہوتیں
ہر حسین کا جلوہ دلکُشا نہیں ہوتا
حُسن کی حقیقت سے آگہی نہ ہو جب تک
پیار ہو تو جاتا ہے دیرپا نہیں ہوتا
راہبر ہو کامل تو منزلیں بلاتی ہیں
راستے میں درماندہ قافلہ نہیں ہوتا
میرے غیر سے کہدو اِس طرح نہ اِترائے
پیار ہر کہیں ظاہر برملا نہیں ہوتا
خون کے سبھی قطرے سرخ رو نہیں ہوتے
جنگ کا ہر اک میدان کربلا نہیں ہوتا
رنجشیں نہیں پلتیں، تلخیاں نہیں بڑھتیں
جس جگہ اناؤں کا مسئلہ نہیں ہوتا
پیار کا حسیں تحفہ قسمتوں سے ملتا ہے
ہر کسی کی قسمت میں یہ لکھا نہیں ہوتا
خوب کہہ گیا کوئی، جان دی، اسی کی تھی
حق ادا کریں پھر بھی حق ادا نہیں ہوتا
کوچۂ وفا میں وہ شرمسار پھرتا ہے
جس کے پاؤں میں کوئی آبلہ نہیں ہوتا
رات کی خموشی میں دل کے ساز چھڑتے ہیں
ساتھ ہمنوا کوئی دوسرا نہیں ہوتا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں