60۔ جو اس کے پیار کی جھولی میں سوغاتیں بھی ہوویں گی

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ202۔203

60۔ جو اس کے پیار کی جھولی میں سوغاتیں
بھی ہوویں گی

جو اس کے پیار کی جھولی میں سوغاتیں
بھی ہوویں گی
تو دل میں شکر ہونٹوں پہ مناجاتیں بھی
ہوویں گی
بِرہ کے دن کٹیں گے فاصلے بھی مٹ ہی
جائیں گے
بہم بیٹھیں گے مل کے روبرو باتیں بھی
ہوویں گی
ابھی تو دور سے ہی وہ ہمیں درشن کراتے
ہیں
وہ دن بھی آئیں گے کہ جب ملاقاتیں بھی
ہوویں گی
شبِ تاریک کٹ جائے گی بادل چھٹ ہی جائیں
گے
مقدّر میں ہمارے چاندنی راتیں بھی ہوویں
گی
وہ دولہا چاند اپنی چاند نگری میں جو
آئے گا
تو اُس کے ساتھ میں کرنوں کی باراتیں
بھی ہوویں گی
زمانے کے تقاضے بھی نبھائیں گے سبھی
لیکن
ہمارے ساتھ پُرکھوں کی روایاتیں بھی
ہوویں گی
وفا کی راہ پہ نسلیں ہماری گامزن ہوں
گی
ہمارے عشق کی لب پہ حکایاتیں بھی ہوویں
گی
کسی سے نہ کبھی امید رکھو دلنوازی کی
بڑھے گی گر توقع تو شکایاتیں بھی ہوویں
گی
بنے گی بات کیسے جو تناؤ کم نہیں ہوگا
نبھے گی کس طرح جو بیچ میں ذاتیں بھی
ہوویں گی
اگر ہم نفسِ امارہ کی باگیں تھام کے
رکھیں
تو رب جی سوہنے کی پھر عنایاتیں بھی
ہوویں گی
ہماری نین جھیلوں کا جو پانی اُس کنے
پہنچا
کھلیں گے پھول بھی صحرا میں برساتیں
بھی ہوویں گی
جو دینا ہے تو عزت سے مجھے چاہت کے
تحفے دو
وہ ہونگے اور جن ہاتھوں میں خیراتیں
بھی ہوویں گی
ہم انساں ہی رہیں گے کہ ملائک بن نہیں
سکتے
کچھ اچھی ہیں تو کچھ ہم میں غلط باتیں
بھی ہوویں گی
جو اپنے نفس کو مٹی میں یکسر رول دیویں
گے
یقیں رکھیں کہ پھر ان کی مداراتیں بھی
ہوویں گی
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں