74۔ فلک پہ پہنچے جو دل کے نالے تو رحمتِ کردگار لائے

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ236۔237

74۔ فلک پہ پہنچے جو دل کے نالے تو رحمتِ
کردگار لائے

فلک پہ پہنچے جو دل کے نالے تو رحمتِ
کردگار لائے
الم زدوں کے لئے ہمیشہ سکون لائے قرار
لائے
یہ بھولے انساں اسی میں خوش ہیں کہ
دنیا ان کے لئے بنی ہے
نہ روح کا ہے کوئی بھروسہ نہ جسم پر
اختیار لائے
یہ فخر کیسا ، غرور کیسا ، بھلا ہماری
بساط کیا ہے
ذرا سی اک جان لے کے آئے ستم ہے وہ
بھی اُدھار لائے
چمن کا در تو کھلا تھا سب پر نصیب لیکن
ہے اپنا اپنا
کچھ اپنے دامن میں پھول لائے کچھ اپنی
جھولی میں خار لائے
ہیں اُس کے جلوے تو آشکارا چمن چمن
میں دمن دمن میں
ہے جائے حیرت کہ اب بھی اس پر نہ کوئی
گر اعتبار لائے
مہک گلوں کی بتا رہی ہے کہ ہے گلستاں
میں جلوہ آرا
وہ حُسنِ خوبی جو اپنے ہمراہ سَیلِ
رنگ و بہار لائے
تھا اُس کی رحمت کا یہ تقاضا کہ اس
کی بخشش رہے زیادہ
فرشتے گرچہ میری خطا و گناہ بھی بے
شمار لائے
حسین تر ہے سرشت اس کی جو دوست داری
کا مان رکھ لے
نہ اپنے ہونٹوں پہ کوئی شکوہ نہ اپنے
دل میں غبار لائے
پکارتا ہے چمن مجھے ایسے باغباں کی
ہے اب ضرورت
روش روش کو جو حسن بخشے ، کلی کلی پہ
نکھار لائے
نہ ہو خزاں کا گزر یہاں سے سدا مہکتا
رہے یہ گلشن
خدا کرے کہ مِرا مقدر بہار اندر بہار
لائے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں