73۔ شوقِ حصولِ منزل و تدبیر بھی تو ہو

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ
234۔235

73۔ شوقِ
حصولِ منزل و تدبیر بھی تو ہو

شوقِ حصولِ منزل و تدبیر بھی تو ہو
پر اس کے ساتھ خُوبئ تقدیر بھی تو ہو
رحمت تِری وہی مِرا دستِ طلب وہی
پھر دیر کیوں ہے باعثِ تاخِیر بھی تو
ہو
کیا فردِ جرم مجھ پہ ہے کچھ تو ذرا
کُھلے
مجھ پہ عیاں مِری کوئی تقصیر بھی تو
ہو
مَیں مجرِم وفا ہوں مجھے اعتراف ہے
لیکن یہ جُرم لائقِ تعزیر بھی تو ہو
سمجھائے کوئی گِرتے مکاں کے مکین کو
تخریب ہو چکی ہے اب تعمیر بھی تو ہو
بَن باس کا جو حکم ہے مَیں کر تو لوں
قبول
یہ سر زمین آپ کی جاگیر بھی تو ہو
ظلمت کدے میں دہر کے بھیجا گیا ہے گر
راہوں میں لُطفِ یار کی تنویر بھی تو
ہو
تنہائی کے عذاب سے بچنے کے واسطے
باہم تعلقات کی زنجیر بھی تو ہو
اِس کائنات کی تو ہے بیحد وسیع بساط
اِنساں کے پاس قوّتِ تسخیر بھی تو ہو
کرب و بلا کا دَور سعادت تو ہے مگر
پیدا دِلوں میں جذبۂ شبّیر بھی تو ہو
ہونٹوں پہ دعویٰ ہائے محبّت رہے تو
ہیں
سینے پہ نقش یار کی تصویر بھی تو ہو
گر پیار ہے تو پیار کا بھی چاہیئے ثبوت
دِل پہ رقم وفاؤں کی تحریر بھی تو ہو
خوابوں کے آسرے پہ گزاری ہے زندگی
ظاہر اب اپنے خواب کی تعبیر بھی تو
ہو
اے حسنِ بے نیاز اِدھر بھی نِگاہِ لُطف
قائم جہاں میں عِشق کی تَوقِیر بھی
تو ہو
آنسو بہے تو کیا مِرا سینہ جلا تو کیا
پیدا مِری دُعاؤں میں تاثیر بھی تو
ہو
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں