90۔ رحمت کی آس میں مِرا دستِ دُعا دراز

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ
273۔275

90۔ رحمت
کی آس میں مِرا دستِ دُعا دراز

رحمت کی آس میں مِرا دستِ دُعا دراز
اِک نظرِ التفات سے مولا مُجھے نواز
ہر آن ہے لپیٹ میں اپنی لئے ہوئے
احساس کی تپش مجھے افکار کا گداز
لمحے جُدائیوں کے بہت ہوگئے طویل
فُرقت کی لَے میں ڈوبی ہوئی ہے نوائے
ساز
خُدّام کے فراق میں محمود بے قرار
شہرِ وفا میں مضطرب محمود کے ایاز
ربِّ کریم! شانِ کریمی کا واسطہ
پہلی سی ڈال پھر وہی اک نِگہِ نیم باز
یہ ابتلا کا دَور بھی ہم کو قبول ہے
آقا مرے بخیر رہیں عمر ہو دراز
اَب تابِ ضبط و صبر و تحمل نہیں رہی
اَے ذوالجلال! آئینِ رحمت کا ہو نفاذ
میری مجال کیا ہے کہ شکوہ کروں ترا
گستاخیاں نہیں ہیں محبت کے ہیں یہ ناز
تیرے سوا ہے کون؟ تری ذات ہی تو ہے
مشکل کُشا، مجیبِ دُعا، ربِّ کارساز
تیرے ہی پاس ہے مرے ہر کرب کا علاج
چارہ گری کا کوئی کرشمہ! اے چارہ ساز
بے پایاں تیری نعمتیں، رحمت ہے بے کراں
انساں کی پستیوں کو بھی بخشا گیا فراز
مالک ہے تُو کریم ہے تُو، بے نیاز ہے
نے حاجتِ عمل تجھے، نے حاجتِ جواز
ہاں مردِ فارسی سے تعلّق مرا بھی ہے
تیری عنایتوں کے تصدّق مجھے نواز
اَب جلد آ کہ سنگِ عداوت کی زد میں
ہے
میری اذان، میری عبادت، مری نماز
تدبیر کوئی کر تری تدبیر چاہئے۔۔۔۔!
میں سادہ و غریب ہوں دشمن زمانہ ساز
لَا تَقْنَطُواکا قول ہے ڈھارس دئیے
ہوئے
تیری گرفت سخت ہے، پر ڈھیل ہے دراز
تشنہ لبانِ مشرق و مغرب کو ہو نوید
بٹتی ہے آج پھر مئے خُم خانۂ حجاز
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں