89۔ باوجود اس کے کہ ہیں میری خطائیں بے شمار

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ271۔272

89۔ باوجود اس کے کہ ہیں میری خطائیں بے
شمار

باوجود اس کے کہ ہیں میری خطائیں بے
شمار
میرے مولیٰ کی رہیں مجھ پہ عطائیں بے
شمار
حسن کے جلوے فقط بہرِ نکوکاراں نہیں
عاصیوں نے بھی تو دیکھی ہیں ادائیں
بے شمار
آزمائش کی گھڑی، کرب و بلا کے امتحاں
سب بجا، پر رد ہوئی بھی ہیں بلائیں
بے شمار
ہم رہِ جاناں کے راہی دار پر کھینچے
گئے
عشق میں اُن کے سہیں ہم نے جفائیں بے
شمار
اِک ذرا سی بات پہ وہ کیوں خفا ہونے
لگے
یاد کیا انکو نہیں میری وفائیں بے شمار
ناتوان و مضمحل ہیں ہجر کے مارے ہوئے
اب نہیں طاقت کہ ہم صدمے اٹھائیں بے
شمار
ذکر کیا غیروں کا وہ تو غیر ہیں پر
میری جاں
آپ تو نہ اسطرح چَرکے لگائیں بے شمار
میرے عیبوں کی نہ کرنا مالِکا پردہ
دری
ڈال دینا مُجھ پہ غفراں کی ردائیں بے
شمار
داغ ہائے معصّیت دِل سے مٹانے کےلئے
عاصیوآؤ کہ ہم آنسو بہائیں بے شمار
آؤ پھر مِل کے کریں تجدید ذوق ِعشق
کی
چاند پھر عہدِ وفا کے جگمگائیں بے شمار
میں بھی اُن کی ہوں مجھے بھی اُن سے
کچھ حصّہ ملے
میرے آقا نے جو مانگی ہیں دعائیں بے
شمار
دیکھئے کب لوٹ کے آتی ہیں جھولی کو
بھرے
عرش پر پہنچی ہیں جو مضطر صدائیں بے
شمار
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں