20۔ خیر مقدم حضرت خلیفۃالمسیح الثانی

بخار
دل صفحہ67۔69

20۔
خیر مقدم حضرت خلیفۃالمسیح الثانی

برموقع واپسی از سفر یورپ
جب 24دسمبر 1924ء دو شنبہ کے روز حضرت
خلیفۃ المسیح الثانی سفر یورپ سے نہایت کا میابی کے ساتھ واپس قادیان میں تشریف لائے
تو بعد نماز عصر ایک عظیم الشان مجمع کی موجودگی میں بیت اقصیٰ کے اندر اہلِ قادیان
کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا گیا۔ یہ نظم اسی موقع کے لئے کہی گئی
تھی اور سیّد عبدالغفور ابن میر مہدی حسن صاحب نے ایڈریس کے پیش ہونے سے پہلے نہایت
خوش اِلحانی کے ساتھ حاضرین کو پڑھ کر سنائی تھی ۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی
شکر صد شکر! جماعت کا اِمام آتا ہے
ﷲِ الحمد! کہ بانیلِ مَرام آتا ہے
زیبِ دستار کیے فتح و ظَفَر کا سہرا
ولیم کنکرر1؎ اور فاتِحِ شام آتا ہے
مَغرِبُ الشَّمس کے ملکوں کو مُنَوَّر
کر کے
اپنے مرکز کی طرف ماہ تَمام آتا ہے
پاس مینارِ دمشقی کے بصد جاہ و جَلال
ہو کے نازل یہ مسیحا کا غلام2؎ آتا
ہے
مرحبا! ہو گئی لندن میں وہ بیت تعمیر
جس کی دیوار پہ محمودؔ کا نام آتا ہے
سچ بتانا تُم ہی اے مُدَّعیانِ ایماں
کون ہے آج جو اِسلام کے کام آتا ہے
عَظمَتِ سِلسلہ قائم ہوئی اس کے دَم
سے
خوب پُہنچانا اُسے حق کا پیام آتا ہے
آج سُورج نکل آیا یہ کِدھر مَغرب سے
ہم سمجھتے تھے کہ مَشرق سے مُدام آتا
ہے
مُژدہ اے دِل کہ مسیحا نفسے می آید
کہ زِ انفاسِ خوشش بوئے کَسے می آید
اے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے
وہی
دستِ عاشق ہے وہی’ یار کا داماں ہے
وہی
ہو گئی دُور غمِ ہجر کی کُلفَت ساری
ﷲِ الحمد کہ اللہ کا احساں ہے وہی
پھر مِرے بادہ گسارو! وہی ساقی آیا
مے وہی’ جام وہی’ محفل رِنداں ہے وہی
کارِ سرکار کیا خواب و خورش کر کے حرام
دیکھ لو پھر بھی بہارِ رُخِ تاباں ہے
وہی
سامنے بیٹھے ہیں اس بزم کے میخوار قدیم
بیعتِ دِل ہے وہی’ قلب میں ایماں ہے
وہی
قادیاں! تجھ کو مبارک ہو وُرُودِ محمود
دیکھ لے! دیکھ لے! شاہنشہِ خُوباں ہے
وہی
آج رونق ہے عجب کوچہ و برزن میں ترے
بادہ خواروں کے لئے عیش کا ساماں ہے
وہی
رشک تجھ پر نہ کرے چرخ چہارم کیونکر
طُورِ سَینا پہ تِرے جلوۂ فاراں ہے
وہی
آمدِ فَخرِ رُسُل3؎ حضرت احمد کا نُزول
دونوں آئینوں میں عکس رُخِ جاناں ہے
وہی
زآتِشِ وادئ ایمن نہ منم خرم و بس
موسیٰ ایں جا باُمیدِ قَبسے می آید
آپ وہ ہیں جنہیں سب راہ نما کہتے ہیں
اہلِ دِل کہتے ہیں اور اہلِ دعا کہتے
ہیں
آپ کو حق نے کہا ”سخت ذکی” اور
”فہیم
مظہرِ حق و عُلیٰ ۔ ظِلِّ خدا”
کہتے ہیں
رَستگاری کا سبب آپ ہیں قوموں کےلئے
ہر مصیبت کی تمہیں لوگ دوا کہتے ہیں
آپ وہ ہیں کہ جنہیں ”فخر رُسل” کا
ہے خِطاب
دیکھنے والے جب ہی صَلِّ علیٰ کہتے
ہیں
اِستجابت کے کرشمے ہوئے مشہورِ جہاں
آپ کے دَرکو دَرِ فیض و عطا کہتے ہیں
کوئی آتا ہے یہاں سائِلِ دُنیا بن کر
مطلب اپنا وہ زَر و مال و غِنا کہتے
ہیں
رِزق اور عزّت و اولاد کے گاہک ہیں
کئی
بخشوانے کو کوئی اپنی خطا کہتے ہیں
کوئی دربار میں آتا ہے کہ مِل جائیں
عُلوم
کوئی اپنے کو طلبگارِ شِفا کہتے ہیں
نیک بننے کےلئے سینکڑوں در پر ہیں پڑے
خود کو مشتاقِ رَہِ زُہد و تُقیٰ کہتے
ہیں
طالبِ جَنّتِ فردوس ہیں اکثر عاقِل
دارِ فانی کو فقط ”ایک سَرا” کہتے
ہیں
میں بھی سائِل ہوں طلبگار ہوں اک مطلب
کا
کوئے احمدؐ کا مجھے لوگ گدا کہتے ہیں
میری اک عرض ہے اور عرض بھی مشکل ہے
بہت
دیکھئے آپ بھی سُن کر اسے کیا کہتے
ہیں
جس کی فُرقت میں تڑپتا ہوں’ وہ کچھ
رحم کرے
یعنی مِل جائے مجھے جس کو خدا کہتے
ہیں
ہیچکس نیست کہ در کوئے تو اش کارے نیست
ہرکس ایں جا باُمیدِ ہَوَسے می آید
1؎ William Conqueror ولےم
اوّل جس نے انگلستان کو فتح کیا تھا۔       2؎
غلام یعنی پسر   3؎
فخر رُسل” حضرت خلیفۃالمسیح الثانی
کا الہامی نام ہے۔
الفضل 25نومبر 1924ء

اپنا تبصرہ بھیجیں