33۔ دِن مُدّتوں میں آئے ہیں پھراہلِ حال کے

بخار
دل صفحہ93۔94

33۔
دِن مُدّتوں میں آئے ہیں پھراہلِ حال کے

طالِب ہیں مجھ سے بڑھ کے وہ میرے وِصال
کے
شَیدا میں اُن کے قال کا، وہ میرے حال
کے
کیاکہنے اُس نِگار کے حسن و جمال کے!
ناز و ادا کے، آن کے، شوخی کے، چال
کے
مِہر و وَفا کے’ رحم کے’ احسان و لُطف
کے
شوکت کے’ عِزّ و شان کے’ جاہ و جلال
کے
برسوں سے زیرِ مَشقِ اَطِبّا ہے زخمِ
دل
!
وہ آئیں گے تو آئیں گے دن اِندمال
لِلّٰہ کچھ تو بولئے یا رُخ کو کھولیے
اک تو خموشی دوسرے یوں پردہ ڈال کے
بے درد و سوز و عشق اگر وصل ہو کوئی
لے جاؤ ایسے وصل کو واپس سنبھال کے
شوقِ دُعا و ذوقِ رَضا جمع کر کہ یاں
مِلتا ہے کچھ سوال پہ کچھ بے سوال کے
راہِ وِصالِ یار نہیں پُل صراط ہے
ہر اک قدم یہاں پہ خدارا سنبھال کے
بن جائے گا کبھی نہ کبھی خود بھی بے
نظیر
در پر پڑا رہے گا جو اُس بے مِثال کے
آگے بڑھے کہ پیچھے ہٹے کیا کرے غرِیب
جلوے جو دیکھتا ہو جَمال و جَلال کے
کیا پھونکنے کو آئے تھے تُم آشیانِ
دِل
چلتے بنے جو آگ مَحبت کی ڈال کے
رِندی کی اپنے مُنہ سے اُٹھا دوں اگر
نِقاب
اَبدال آئیں کھولنے تَسمے نِعال کے
تیغِ نگاہِ یار نے بس کھیل کھیل میں
ٹکڑے اُڑا دیے دلِ آشُفتہ حال کے
اب دیکھیں آ کے عِشق کی قُربانیاں ذرا
دِکھلا چکے حسین تَماشے جَمال کے
جی چاہتا ہے آپ کے قدموں میں ڈال دوں
ہاتھوں سے اپنے اپنا کلیجہ نِکال کے
کہہ دو ان اہلِ قال سے دفتر لپیٹ لیں
دِن مُدتوں میں آئے ہیں پھر اہلِ حال
کے
پیرے کہ دم ز عشق زَنَد بس غنیمت است
دِل تو جواں ہے خواہ یہ دن ہوں زَوال
کے
اے شاہِ حُسن تُم پہ نہیں کیا زکوٰۃِ
حُسن
یا لُطف آ رہا ہے فقیروں کو ٹال کے
بس اِتنی اِلتجا تھی کہ تُم بخش دو
مجھے
دامانِ مَغفِرَت کو مَعاصی پہ ڈال کے
مِل جائے ایک قبر جوارِ مسیح میں
اور حشر اپنا ساتھ ہو احمدؑ کی آل کے
آمین
الفضل25اکتوبر1932ء

اپنا تبصرہ بھیجیں