101۔ عام آدمیوں کی سادہ باتیں اوراہل علم کی اصطلاحیں

بخار
دل صفحہ224۔225

101۔
عام آدمیوں کی سادہ باتیں اوراہل علم کی اصطلاحیں

اہل علم نے اکثر مذہبی اصطلاحیں
ایسی مشکل اور ناقابل فہم بنا دی ہیں کہ محض الفاظ ہی کے ڈر اور رُعب سے غیر عربی دان
عوام الناس اُن کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ خوف کھاتے ہیں کہ خدا جانے یہ کیا مصیبت
ہے جو ہمیں در پیش ہے۔ مثلاًعرفانِ اِلٰہی، اِلہامِ خداوندی، محبت الٰہی، وصل الٰہی،
تقویٰ اللہ، ذکر و تسبیح، انعاماتِ خداوندی، نصرتُ اللہ اور تائیدِاِلٰہیہ وغیرہ وغیرہ۔
جب علمائے کرام اپنی تقریروں میں ایسے الفاظ کا ذکر کرتے ہیں تو بچارے کم علم دیہاتی
لوگ حسرت سے اُن کے منہ کو تکتے ہیں۔ اگر انہی الفاظ کو عوام کے لئے سادہ عبارت میں
اُن کی اپنی زبان میں بیان کیا جائے تو دین کے متعلق لوگوں کی بعض مشکلات دُور ہو جائیں
اوراُن کومذہب کا شوق بھی پیدا ہو جائے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں ہر شعر کے ایک مصرع میں
مذہبی اِصطِلاح اور دوسرے مصرع میں اس کا عام فہم اُردو مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ مطلب
یہ ہے کہ لوگ ان اِصطِلاحات کی اَصلِیَّت سے کسی حد تک واقف ہو جائیں۔
جان پہچان تُم سے ہو جائے
معرِفَت سے بھلا ہمیں کیا کام
بات سُننے کو میں ترستا ہوں
مجھ کو اِلہام چاہیے نہ کلام
تُم پہ مرتے ہیں اے مِرے پیارے
عشق کا دے رہے ہو کیا اِلزام
یونہی چھپ چھپ کے ملتے رہنا تُم
وصل کا تو خیال ہی ہے خام
زاہدو! کیا کریں دعاؤں کو
مانگنا بھیک ہے ہمارا کام
مجھ سے تقویٰ کا کرتے ہو کیا ذکر
ڈرتا رہتا ہوں جب میں تُم سے مُدام
ذکر و تسبیح سے تعلق کیا
اپنے دِلبر کا جَپ رہے ہیں نام
واسطہ کیا مجھے عبادت سے
ہوں تمہارا میں بندۂ بے دام
ہم تو تیرے ہیں خاکِ پا اے دوست
عُجب اور کِبر سے ہمیں کیا کام
جس کی آنکھوں میں رات کٹتی ہو
وہ تہجد میں کیا کرے گا قیام
چیز کیا ہیں یہ نُصرت و تائید
تُم ہی آؤ گے وقت پر کچھ کام
ہم فقیروں کو دیجئے خیرات
اور کچھ چاہتے نہیں انعام
الفضل 17 دسمبر 1944ء

اپنا تبصرہ بھیجیں