112۔ ابیات

بخارِدل
صفحہ279

112۔
ابیات

1
کوئے جاناں کا پتا ملتا نہ تھا
اک نبی آیا تو رستہ مل گیا
2
دُعا ہے خدا کے خزانوں کی کنجی
ہر اک قفل کی ہے یہی ماسٹر کی1؎
3
دِل سے نکال کر بخل کو اور خوفِ مرگ
کو
اس کے سوا مقام محبت عطا نہ ہو
4
ایک تھی دونوں کی منزل فرق پر رستوں
کا تھا
شیخ سیدھا’ گبر دوزخ ہو کے پہنچا خُلد
میں
5
سارا جہاں بہشت میں ہو تب بھی مجھ کو
کیا
جب تک کہ خود میں داخل خُلدِ بریں نہ
ہوں
6
جلوے کی تیرے دنیا قرنوں سے منتظر تھی
چہرہ دکھا دے اب تو، اے آسمان والے!
7
اے میرے دِل کے مالک! من کو درست رکھیو
کر پاک روح میری تن تندرست رکھیو
8
کیا ٹھکانا ہے دل کی وُسعت کا
جس میں واسع بھی ہے سما جاتا
9
شیخِ کامل سے فقط عشقِ مجازی چاہئے
ورنہ امرو تو جہنم میں تجھے لے جائے
گا
10
بے دلائل، بے حوالہ، بے سند
درج سب باتیں ہیں، پر ہیں مستند
11
کعبۂ دل میں میرے مثلِ حرم
تِن سو ساٹھ بُت تھے اک خدا کے ساتھ
12
انا الحق کہہ نہیں سکتا، سوا نبیوں
کے کوئی بھی
ذرا منصور بولا تھا کہ سُولی پہ گیا
کھینچا
13
در پہ تیرے، اے شہِ والا خصال
ہر سوالی کا نیا ہے اِک سوال
Key

اپنا تبصرہ بھیجیں