111۔ قطعات، رباعیات

بخارِدل
صفحہ237۔278

111۔
قطعات، رباعیات

دانت گِرنا
ہے آفتِ پِیری
ریشِ ابیض، کرامتِ پِیری
شاعروں کے لئے مگر اے دوست
ہے رُباعی عَلَامتِ پِیری
(1)
کیسی ہے کریم اُس خدا کی درگاہ
جس نے کیا ہم کو نیک بد سے آگاہ
گرہم کو سہارا ہے تو ہے اُس کا ہی
لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ
(2)
نَفس کی خاطِر سے گر کرتا ہے تو
یہ عِبادت، یہ طَہارت، یہ وُضو
غیر کی خاطِر بھی کچھ قُربان کر
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا
(3)
فَضل پر گو مُنحصر ہے سب عطا
پر عمل ہیں جاذِبِ فَضلِ خدا
اس لئے نیکی میں کوشش صرف کر
لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی
(4)
مقصد اپنا اب واللہ
کوئی نہیں ہے جُز اللہ
عشق چڑھا تب بولا دِل
لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ
(5) شِرک کا علاج سورۂ اخلاص
ہیں گُنہ بے حدّ و عَد
شِرک ہے پر سب سے بَد
اور علاج اس زہر کا
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
(6) تندرستی کا گُر
اگر تندرستی کی ہے آرزُو
طبیبوں کی کرنا نہ تُم جُستجُو
یہی ایک کافی ہے یارو عمل
کُلُوْا وَ شْرَبُوْا’ لیک
‘لَا تُسْرِفُوْا
(7) تقویٰ
تقویٰ کے معنی ہیں محض خدا کے خوف اور
اُس کی عظمت کی وجہ سے گناہ سے بچنا۔ نہ کہ مخلوقات یا کسی بیماری یا نقصان وغیرہ کے
ڈر سے۔
کَشائِش کی خاطِر جو ہو مُضطَرِب
رہے وہ گنہ سے سدا مُجتَنِب
وَ مَنْ یَّتَّقِ ﷲ  یَجْعَلْ لَہ
وَ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحتَسِبْ
(8) غَضِّ بَصَر
حُسنِ صَنعت دیکھ کر پہلے ہی آنکھیں
خِیرہ تھیں
سب سے آخر پیکرِ حوّا1؎ پہ جم کر رہ
گئیں
جو خُمارِ حسن’ صانع سے’ تجھے غافلِ
کرے
ہے علاج اُس جلوۂ صنعت کا قُلْ
لِّلْمُوْمِنِیْن2
؎
1؎ وصوّر کم فا حسن صور کم   2؎ قل للمومنین یغضّوا من ابصارھم
(9) ابدی جنت
رُوحِ انسانی کی پاسکتا ہے کب وُسعت
کوئی
کیا سمجھ سکتا ہے اس کی بھوک کی شدّت
کوئی؟
مثلِ دوزخ نفس بھی ہے چیختا ہَلْ
مِنْ مَّزِید
پیٹ اس کا بھر نہیں سکتا بَجُزْ جنت
کوئی
(10) نماز اور زکوٰۃ
دلاتا ہے صدقہ بَلا سے نَجات
دُعائیں پِلاتی ہیں آبِ حَیات
یہی دو ہیں مغزِ اَحکامِ دیں
اَقِیْمُو الصَّلٰوۃ وٰاتو الزَّکٰوۃ
(11) احمدیہ آئرن فیکٹریز کے متعلق
پیشگوئی
لوہے کے کارخانے کھلے ہیں کئی جدید
اور قادیاں کے لوگ مناتے ہیں اس پر
عید
احمدؑ کو بھی تو حضرتِ داؤدؑ کی طرح
الہام یہ ہوا تھا الَنَّا
لَکَ الْحدید1
؎
1؎ یعنی ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم
کر دیا اس وقت قادیان میں ایک درجن لوہے کی فیکٹریاں ہیں۔
(12) غیر مبائعیین کی تبدیلئ عقیدہ
دعویٰ احمدؑ نے نبوت کا کیا
ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْھَدُوْن
بعد رحلت جب یہی ہم نے کہا
ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰؤُلآءِ تَقْتُلُوْن
(13) غیر مبائعیین سے اُن کی نمازوں
کے متعلق کچھ عرض
غیر ہیں سب مَیِّتُونْ
کر نمازوں کا نہ خُون
اِقتِدا اُن کی حرام
فَا فْعَلُوْا مَا تُؤ مَرُوْن
(14) حشر کے دن ایک آریہ رُوح و
مادہ کو مخاطب کر کے یوں کہے گا
روح و مادہ! تُم تو اَزَلی تھے نہیں
لیک ہم رکھتے تھے ایسا ہی یقیں
آریہ بن کر بھی گمراہ ہی رہے
إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ
1
؎
1؎ یعنی جب ہم تمہیں خدا کے برابر سمجھتے تھے۔
(15) اعمال نِیّت پر مُنحصر ہیں
جیسی نیت ہوگی ویسی ہی برآئیگی مُراد
نیک نیت بامُراد اور بد ارادہ نامُراد
ساری برکت فعل کی نیّت سے وابستہ ہے
جب
اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِالنِّیّات رکھ
ہر وقت یاد
(16) فطرتی توحید جو عقل سے حاصل
ہو سکتی ہے
مُکَلَّف ہے ہر رُوح توحید کی
اگرچہ نہ دیکھا ہو اس نے نبی
یہی دینِ فطرت ہے ہر عقل کا
اَلَسْتُ
پہ ہے وہ
بَلیٰ بولتی
(17) ذکر اور دُعا
کرتے تھے ذکر خوب بزرگانِ اَوّلین
لیکن دُعا ہے طُرّہ و طُغرائے آخرین
کہتے تھے وہ بزرگ تو اِیَّاکَ
نَعْبُدُ
اور آج کل کے کہتے ہیں اِیَّاکَ
نَسْتَعِیْن
(18) نِشانِ نَجات
دعا از خدا، رحم بر کائنات
ہمیں آمدہ بس نِشانِ نَجات
زِ مُصحف بخواں مغزِ اَعمالِ دیں
اَقِیمُو الصَّلٰوۃَ وَ ٰاتُو
الزَّکٰوۃ
(19) شرارتوں اور فسادوں سے دنیا
میں ہی عذاب آ جاتا ہے
عرب کے عاد1؎ تھے شیطان اور جِن
کہ سمجھانے کو آیا ایک محسن
فساد اور بت پرستی پر نہ چھوڑی
اَلاَ بُعْدً الِّعادٍ قَوْمِ ہُوْدٍ
(1) عاد عرب کی ایک قوم تھی۔ جس
کی بداعمالیوں کے باعث حضرت ہود اس کی ہدایت لئے مبعوث ہوئے تھے۔
(20) اعمال کا اصل الاصول
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ
وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ
وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل 91)
ایک آیت ہے عجب اَصلُ الاُصول
حِفظ کر لو اُس کو تُم اے دوستو
عدل و احساں – اَقرِبا پر رحم ہو
منکر و فحشا – بغاوت سے بچو
(21) وسیلۂ وَصل
ہو جو ملنے کو یار کے بے تاب
ڈھونڈتا ہے وَسائل اور اَسباب
بسکہ تقویٰ خدا کو ہے محبوب
فَاتَّقُو اللّٰہَ یٰا اُوْلِی الْاَلْبَاب
(22) انسان
کلامِ حق مجھی سے ہے خلافت بھی مجھے
بخشی
مِری خاطر بنی جنت بنایا ہے مجھے اَبَدی
امانت بھی ملی ہے مجھ ظلوماً اور جہولاً
کو
خدا کی روح ہے مجھ میں نَفَخْتُ
فِیْہِ مِنْ رُّوْحی
الہامات حضرت مسیح موعودؑ
(23) سلطنت ایران کی بابت پیشگوئی
ہوا ملکِ فارس میں برپا فساد
تو آیا مسیحاؑ کا اِلہام یاد
رضاؔ شاہ در بندِ قیدِ فرنگ
تَزَلزُل در اَیوانِ کِسریٰ
فَتاد
(24) دُعابرائے حفاظتِ مرکز
جنگ کی اب چل رہی ہے منجنیق
کٹ رہا ہے، مر رہا ہے ہر فریق
کر حفاظت مرکز اسلام کی
یاحفیظُ، یاعزیزُ، یارفیق
(25) احمدیت کی ترقی خداکے ہاتھوں
ہے نہ کہ انسان کے
بے عمل انعام ہے اللہ اکبر
مفت کا اِکرام ہے اللہ اکبر
سلسلہ کو کیا کوئی دے گا ترقی
یہ خدا کا کام ہے اللہ اکبر
(26) اَیْنَمَا تَوَلُّوْ فَثَمَّ
وَجْہُ ﷲ
سخاوت کا شہرہ ترا کُو بکُو ہے
ہر اک شے میں جاناں ترا رنگ و بو ہے
بیاں کیا کروں جلوۂ حُسن تیرا
جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی
تو ہے
(27) سلام برمسیح موعودؑ
ہمارے دین پر جب آئی آفت
تو کی احمدؑ نے تجدید و حِفاظت
خدا اِسلام کا خوش ہو کے بولا
سلامت بر تُو اے مردِ سلامت
(28) کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَان
نبی سب ہوئے موت کا جب شِکار
تو اَوروں کا کیا ہے بھلا یاں شُمار
یہ ہے وحی اُن کی جو خود تھے مسیح
مکن تکیہ بر عمرِ ناپائیدار
(29) پھربہارآئی
پھربہارآئی،توآئے ثلج کے آنے
کے دِن
پھربہارآئی توآئے زلزلے آنے کے دِن
پھربہارآئی۔خداکی بات پھر پوری
ہوئی
پھربہارآئی ۔توآئے خود ترے آنے کے دن
(30) دُنیا میں ایک نذیرآیا
نذیراِک آیادُنیامیں نہ مانی اُس کو
پر دُنیا
خدا اُس کو قَبولے گا قَبولے گی نہ
گر دُنیا
سچائی اُس کی ظاہرہوگی اُن پُرزور حملوں
سے
کہ جن کی مار سے ہو جائے گی زیر و زبر
دُنیا
(31) انگریزی الہام حضرت مسیح موعودؑ
گاڈ اِز کمنگ بائی ہز آرمی1؎
ہی اِز وِد یو ٹو کِل اینی
می2؎
آ گئیں فوجیں، اُڑ گئے دُشمن
حق کی باتیں نکلیں سچی
1؎ God is
coming by his army.          2؎ He is with you to kill enemy.
(32) راز و نیاز(پنجابی)
چھڈ دُنیا نُوں بندیا سارا میرا ہو
جے توں سَچ مُچ مَن لَویں بندہ میرا
ہو
بانہواں گل وِچ پائیکے آکھاں تینوں
مَیں
جے تُوں میرا ہو رہیں سب جگ
تیرا ہو
(33)
عزیزہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنتِ
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنا ایک خواب بیان کیا کہ کسی نے دو شعر
پڑھے ہیں جن میں سے صرف ایک مصرع یاد
رہا۔ جو یہ تھا۔
قبضہ میں جس کے قبضۂ سیفِ خدا نہیں
اور ”سیفِ خدا” سے مراد دُعا معلوم
ہوئی اس پر یہ دو شعر موزوں ہوئے۔
حاصل اُسے مراد نہیں مُدّعا نہیں
قبضے میں جس کے قبضۂ سیفِ خدا نہیں
فطرت کے برخلاف ہے یہ بے تعلقی
بندہ بھی ہے’ خدا بھی ہے’ لیکن دُعا
نہیں
(34) قادیاں والے
صاحبزادی مبارکہ بیگم نے خواب دیکھا
کہ گویا وہ لاہور گئی ہیں۔ وہاں کے پرانے احمدیوں کے کچھ بچے جو اَب غیر مبائع ہیں
اُن کے پاس آئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں سے آئی ہیں۔ صاحبزادی صاحبہ نے جواب
دیا کہ میں قادیان سے آئی ہوں۔ اس پر ان بچوں نے کہا کہ ”ہمارے ابّا بھی کبھی قادیان
والے ہوتے تھے” اس پر صاحبزادی صاحبہ نے اُن کو مخاطب کر کے ایک شعر پڑھا جس کے متعلق
اُنہوں نے خواب میں سمجھاکہ حضرت مسیح موعودؑ کا شعر ہے اور حضورؑ نے یہ شعر ان لڑکوں
کے حق میں فرمایا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تُم کو اب قادیان سے علیحدگی کی پاداش
میں سزا ملے گی۔ اس قطعہ میں خواب والا شعر دوسرا ہے۔ پہلا شعر اس خاکسار نے لکھ کر
اس کو قطعہ بنا دیا ہے۔
کوئے جاناں سے جو بھاگے ہو کدھر جاؤ
گے؟
حسن و احساں میں نظیر اُس کا کہاں پاؤ
گے؟
آخری وقت میں توبہ تو کرو گے
لیکن
اب کبھی قادیاں والے نہیں کہلاؤ گے
(35)
بہت تھوڑی پونجی ہے ایمان کی
اور اُس پر بھی نیّت ہے شیطان کی
کوئی دم میں اُڑ جائے گا یہ بھی نُور
مدد گر نہ پہنچے گی رحمان کی
(36) خطاب بہ پیغامیاں
پیراں نمی پرند” تھے نااہل
پِیر جو
ان کے مُرید ان کو اُڑاتے تھے دوستو!
لیکن تمہارا پِیر تو اُڑتا ہے مثلِ
برق
ایسے کے پَر جو توڑو1؎، تو کیسے مُرید
ہو
!
1؎ یعنی نبوت کوبزوراُس سے الگ کرو
(37) انبیاء کے خاص معاندین
نبیوں سے جنگ کرتا وہی چال باز ہے
جس کو زَنیم ہونے میں خاص اِمتیاز ہے
مُہلت بھی اس کوملتی ہے پھرخوب ہی طویل
سچ ہے ”۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی رسّی دراز ہے
(38) مولوی محمدحسین بٹالوی کاریویو
براہین احمدیہ پر
اک ریویومیں لکھاایساشیخ بٹالہ نے تھااپنے
قالی’ حالی’ مالی’ جانی’ کی
خدمت دیں کی مرزاؔ نے
پچھلی تیرہ صدیوں میں تُم ایساکوئی
تودکھلاؤ
نصرت کی ہو حق کی جس نے دامے’ درمے’
قدمے’ سخنے
(39) مامورین کے مُخالِف خدائی عذاب
کوخودبلاتے ہیں
خدا جب بھیج دیتا ہے زمانے کے مجدد
کو
تو پھر سمجھو ملے گی اب سزا مُلّائے
مفسد کو
مگر ظالِم نِکل کر حملہ کر کے خود ہی
مرتا ہے
کہ موت آتی ہے کُتّے کی تو بھاگے ہے
وہ مسجد کو
(40) مولوی ثناء اللہ بھی سلسلۂ
احمدیہ کاہی ایک مبلّغ ہے
یہ کہہ رہے تھے کھڑے ایک دن ذکاء اللہ
کہ ماسٹر تو ہیں تبلیغ کے عطاء اللہ
یہ سن کے میں نے کہا ”ہو معاف بے اَدَبی
ہے سلسلہ کا مبلغ بڑا ثناء اللہ
(41) ایک دُشمن کے حق میں جوموسیو
مرزاکہہ کرتمسخرکیاکرتاتھا
تو نے انہیں اے بے حیا!جب ”موسیو مرزا”
کہا
یا منہ سیہ تیرا ہوا یا منہ سِیا تیرا
گیا
یعنی زباں بندی ہوئی سرکار کے گھر سے
تِری
یا گر بچا اس سے تو پبلک میں بہت رُسوا
ہوا
میری بعض دُعائیں
(42)
یا ربّ! نصیب رکھیو یہ برکتوں کے ساماں
یہ مسجدِ مبارَک یہ قادیاں کی گلیاں
احمدؑ کا آستانہ، محمودؔ سا خلیفہ
یہ مقبرہ بہشتی، یہ رحمتوں کی جھڑیاں
(43)
بس تُجھی کو تجھ سے ہوں میں مانگتا
اور کچھ خواہش نہیں اس کے سِوا
عشق تیرا جلوہ گر اس دِل میں ہو
اور سَدا حاصل رہے تیری رَضا
(44)
اے مِرے رزّاق اے میرے کفیل
دینِ و دنیا میں نہ رکھ مجھ کو ذلیل
چوں مَرا با پیلباناں دوستی ست
پس درم افراز چوں بالائے پیل
(45)
کُن مَعی اے میرے رحماں! ہر جگہ
قبر و حَشر و جَسر و مِیزاں ہر جگہ
حَسبِیَ اللہ حَسبِیَ اللہ میری جاں
ہر گھڑی، ہر لحظہ، ہر آں، ہر جگہ
(46)
رات ساری کٹی دُعا کرتے
اُن سے یہ عرض و اِلتجا کرتے
کھول دے کان میرے اے شافی
ہم بھی باتیں تیری سُنا کرتے
(47)
اے مُحسِنِ حقیقی! جتنے ہیں میرے مُحسِن
کر فَضل سب پہ یکسر، دے اجر سب کو بہتر
میری طرف سے بدلہ تو آپ اُن کو دیجو
دُنیا میں ہوں مُظَفَّر عُقبیٰ میں
ہوں مُنَوَّر
(48)
الٰہی! دے ہمیں دنیاکی جنت
رضا کی عشق کی آلا کی جنت
بہشتِ برزخ و مَحشَر عطا ہو
خداوندا! ملے عُقبیٰ کی جنت
(49)
عشق سے تیرے یہ دِل آباد ہو
سب عزیزوں سے مِرے تو شاد ہو
مَغ:فِرَت کر دے مِرے ماں باپ کی
خادمِ دینِ متیں اولاد ہو
(50)
اے خداوند! پھلے پھولے یہ تحریکِ جدید
احمدیت کے لئے ہے یہ ترقّی کی کلید
آئے تنظیم میں شباّن و شیوخ و اطفال
ہو گی تبلیغ و زر و وقف سے دِیں کی
تائید
(51)
عمر بھر کرتا رہا ہوں مَیں گناہ
مَغفِرَت پر تیری تھی اپنی نِگاہ
میری اُمیدوں پہ اب پانی نہ پھیر
ہوں میں عاجِز اور تو شاہوں کا شاہ
(52)
تمہاری مَغفِرَت پر خاتَمہ اے کاش میرا ہو
ہو ستّاری دو عالم میں کہ دِل بشاش
میرا ہو
اگر ہو یار تُم میرے تو پھر ہے عرض
میری بھی
حسابِ دوستاں در دِل” نہ پردہ
فاش میرا ہو
(53)
مَغفِرَت اور پردہ پوشی کر مِرے آمُرزگار
تجھ پہ ہیں اَعمال اورنیّات میری آشکار
لافِ زُہد و راستی اور پاپ
دِل میں ہے بھرا
ہے زُباں میں سب شرف اورنیچ دِل جیسے
چمار
(54)
شرم سے اُٹھتا نہیں دستِ دعا
اب ہماری لاج تیرے ہاتھ ہے
ہم کو کیا غم ہو سکے اے دستگیر
جب تِری رحمت ہمارے ساتھ ہے
ضربُ الاَمثال
(55) عبادت اورمعرفت کے لئے شکم
سیری اور پُرخوری زہرہے
تَعَیُّش میں دِل کو نہ اپنے لگا
کہ آئے عبادت میں تجھ کو مزا
بھرے پیٹ سے خوب آتی ہے نیند
شِکَم بندہ
نادِر پَرَستَد خُدا
(56) خداکاطالب کبھی نامرادنہیں
رہتا
تو یاس کو بڑھا کہ نہ کر اپنا عشق سَرد
خالی نہیں پھرے کبھی اس دَر سے اہلِ
درد
تجھ پر نہیں تو ہو گا پھر وہ کس پہ
مِہرباں
عاشق کہ شُد، کہ یار بحالش
نظر نہ کَرد؟
(57) تزکیۂ نفس
با خداوند آشنائی کُن
کعبۂ قلب را صفائی کُن
نشنوی گر نصیحتم اے شوخ
بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن
(58) مضامین نئے نئے
دُنیا نئی ہے اور قوانیں نئے نئے
تجدیدِ دیں ہے اور براہیں نئے نئے
سب کچھ نیاہے جب، تو ہمارے بھی ذہن
میں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں نئے
نئے
(59) عِشق
کچھ علم ہو کچھ عشق ہو کچھ درد ہو کچھ
سوز
بیدار ہوں راتیں تِری خاموش کٹے روز
دیتے ہو مرے مولوی! گو خوب اذاں تُم
اے مرغِ سَحر!عشق زِ پروانہ
بیا موز
(60) دُنیادار
اہلِ وفا کب اہلِ ملامت سے ڈرتے ہیں
قربان جان و مال وہ جاناں پہ کرتے ہیں
دُنیاکے عاشقوں کی نشانی مگر یہ ہے
نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں
تو مرتے ہیں
(61) مقناطیسِ قادیاں
کشش یہاں کی، ہزاروں کو کھینچ کر لائی
کہ قادیان میں ایمان ہے ثُریاّئی
جو آ گیا وہ یہیں کا ہی ہو رہا بالکل
کُجا رَوَد مگس از کار گاہِ
حلوائی
(62) اعمالِ صالحہ
کبھی توچاہئے اے دوست، آخرت کا خیال
کبھی تو عیش کو چھوڑ اور عمل کا وَقت
نِکال
نہ کام آئیں گے عُقبیٰ میں مال اور
دولت
کہ مال تا لبِ گورست وبعدازاں
اعمال
(63) فضیلت مسیح موعودؑ
ہے یوں مثیلِ عیسیٰؑ – عیسیٰ ؑنبی سے
اَفضل
جیسے مثیلِ موسیٰؑ – موسیٰؑ نبی سے
اَکمَل
آتی مِثَل ہے صادِق اَلعَودُ اَحمَد کی
نقاش نقشِ ثانی بہتر کشد ز
اوّل
(64) وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ
امتحاں میں سے گزرتاہے یہاں ہر نیک
و بد
صبر و اِسترجاع1؎ سے تا رحمتیں لے بے
عدد
اِبتلائے خوف و جُوع و نَقصِ اَموال
و نُفوس
ہرچہ آید بر سرِ فرزندِ آدم
بگزرد
1؎ یعنی اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِلیہ
راجعونَ
(65) ہدایت کے معاملہ میں اِلہام
کے بغیر عقلِ انسانی
بیکار بلکہ نقصان دِہ ہے
بیکارہیں یہ
آنکھ کی سب طاقتیں مِری
جب تک کہ آفتاب نہ دے اُس کو روشنی
اِلہام کی مدد کے سِوا بھی اسی طرح
اے روشنئ طبع تو بَرمَن بَلا
شُدی
(66) خواب
بہت سچّے ہوتے ہیں نیکوں کے خواب
پراگندہ ،بے معنی جھوٹوں کے خواب
مگر شدتِ خواہشِ نفس ہو
تو آتے ہیں بِلّی کو چھیچھڑوں کے خواب
(67) متلاشئ حق کو نصیحت
تو کبھی تھا آریہ اور سِکھ کبھی
پھر بنا تو پادری پھر مولوی
احمدی لیکن ہے غالب سب پہ یار
یار غالب شُو کہ تا غالب شوی
(68) ازخیرمحض بجزخیرنمی آید
ذات اُس کی ہے خیرِ محض اے دوست
رحم ہے مغز اور سزا ہے پوست
سُکھ ہے نِعمت تو دُکھ عِلاج تِرا
ہرچہ از دوست میرسد نیکوست
(69) بیعت ایک معیارہے
بیعت سے یہ اظہر ہے
کِس میں اعلیٰ جوہر ہے
جو بِندھ گیا سو موتی تھا
جو رہ گیا سو پتھر ہے
(70) لوگوں کی غلطی
مسیحا تھے یہیں دَارُالعَمَل1؎ میں
تلاش اُن کی تھی پَر بُرجِ حمل2؎ میں
مِثَل آتی ہے تُم پر بھی یہ صادِق
ڈھنڈورا شہر میں لڑکا بغل میں
1؎ دُنیا  
2؎ یعنی آسمان
(71) برآیددرجہاں کارے زِکارے
میاں مسکیں کے ہاں پڑتے تھے فاقے
کہ آ پکڑا  محلّے
کو وَبا نے
میاں کا بھر گیا صدقوں سے کوٹھا
کِسی کا گھر جلے اور کوئی تاپے
(72) اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْث
یَجْعَلْ رَسَالَتہُ
حَسد سے نہ بن تو مسیحا کا دُشمن
دلائل کو دیکھ اور نِشاناتِ روشن
نہ کر سَوکنوں کی طرح عیب چینی
پیا جس کو چاہے وہی ہے سُہاگن
(73) ذکرِالٰہی اوراصلاحِ نفس
رکھ زُباں کو ذکر سے مولا کے تر
تا زُباں سے رُوح تک پہنچے اثر
دِل بھی سیدھا کر کہیں ایسا نہ ہو
بر زُباں تسبیح و در دل گاؤخر
(74) تعاونِ باہمی
جیسے کُھجلاتے ہیں آپس میں گدھے اِک
ایک کو
یونہی دُنیا بھی تعاون سے ہے چلتی دوستو
جملہ اَخلاق و مُروّت کی یہی بُنیاد
ہے
من تُرا حاجی بگویم تو مرا
حاجی بگو
(75) نئے مدعیانِ نبوت
نبی اِک جو دیکھا بصدآب و تاب
تو کھانے لگے آپ بھی پیچ وتاب
بنے چند رویا پہ خود مُدَّعی
رہیں جھونپڑوں میں محلوں کے
خواب
(76) اصلاح
ہیں مُقَرَّرحُدودِ شرعی گو
باقی تَعزِیروں میں مَحَل دیکھو
پہلو اِصلاح کا رہے غالِب
ایک لاٹھی سے سب کو مت ہانکو
(77) حکمت لے لوجہاں سے بھی ملے
خُذماصَفا سے دِین کو ملتا کمال ہے
دَعْ مَاکَدر سے نفسِ دَنی پائمال ہے
حکمت تو مومنوں ہی کی گُم کردہ چیز
ہے
مِل جائے وہ جہاں سے بھی’ اُن کا ہی
مال ہے
(78) مجازی اورحقیقی معشوق میں فرق
میرا معشوقِ مجازی یہ نہیں اور سہی
وہ بھی مر جائے تو پھر عشق کہیں اور
سہی
کون کہہ سکتاہے معشوقِ حقیقی کو مگر؟
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور
سہی
(79) لوگ جو احمدیت میں داخل ہوتے
جھجکتے ہیں ،اُس کا باعث بھی مولوی اور پِیر لوگ ہی ہیں
چَلن صوفی اور مولوی کے جو دیکھے
تو شیطاں سے بھی دو قدم آگے نکلے
جھجکنے لگی قادیاں سے بھی خَل:قت
جَلا دُودھ کا پھُونک کر چھاچھ پیوے
(80) کبیرہ گناہوں کی نسبت صغیرہ
گناہوں کاترک مشکل ہے
ہے کبیرہ کا چھوڑنا آساں
پَر صغیرہ نہ چُھٹ سکے گا کبھی
چور چوری سے جائے گا گو ٹَل
ہیرا پھیرا مگر نہیں چُھٹتی
(81) جنگِ عظیم1943 عیسوی
میدانِ جنگ گرم شدہ رَو غنیمت ست
بی اے کو ماہوار ملیں سَو غنیمت ست
امسال غلّہ اِتنا گِراں ہے کہ بے گماں
گندم اگر بہم نہ رسد جَو غنیمت
ست
(82)
بہت تنگی ہوئی ہے میرے مولیٰ
نہ چیزیں ہیں نہ نوکر ہیں نہ پیسا
کرم کر اور سہولت دے الٰہی
روپے دے کارکن دے اور اشیا
(83)
یا الٰہی! رحم فرما کیا کریں!
ہائے ایندھن” چیختے کب تک
رہیں
لکڑیاں عَنقا ہیں پیسہ ٹھیکری
کوئلوں پر مُہر اور مُہریں
لُٹیں
(84)
نوٹ لے لو اِک روپے کا، دو کا، دس کا،
پانچ کا
ریز گاری کا مگر بالکل نہیں ملتا پتا
تاجروں کو نوٹ دکھلاؤ تو وہ کہتے ہیں
یوں
یا تو پیسے لائیے یا کھائیے
ٹھنڈی ہوا
(85)
جن کے گھر بجلی نہیں ہے اُن کی ہے حالت
عجیب
رات ساری کاٹتے ہیں وہ اندھیرے میں
غریب
تیل مٹی کا نہیں ملتا یہاں چھ ماہ سے
سانپ نکلے، چور آئے، کیا کریں وہ بدنصیب
(86)
ہوا اَسباب سب زیر و زبر ہے
نہ بیوی کی، نہ بچوں کی خبر ہے
چلے ہیں ریل کے باہر لٹکتے
سفر کیا ہے کہ سَچ مُچ کا سَقَرہے
(87)
ہوا ہے جنگ کا اتنا اثر اب نوجوانوں
پر
کہ مسجد میں بھی پانچوں وقت رہتا ہے
یہی چرچا
مساجد یہ خدا کی ہیں کہ قہوہ خانے لندن
کے
خدا کے ذکر سے زیادہ ہے ان میں ذکر
ہٹلر کا
(88)
بانئ ظُلم و سِتَم جو ہیں بڑے’ ڈوبیں
گے
اپنے ہم جنسوں کو ہمراہ لیے’ ڈوبیں
گے
بولا اِک روز امان اللہ مسولینی سے
ہم تو ڈوبے تھے صنم تُم کو
بھی لے ڈوبیں گے1؎
1؎ چنانچہ امان اللہ خان نے جن کا وطن آج کل اٹلی
ہے۔ ایسا ہی کر دکھایا۔
(89)
انگریز تو واقف بھی ہیں اور قوم نہیں
سخت
جرمن ہیں مگر سخت وہ کر دیں گے ہمیں
پست
بالکل ہے غَلَط آپ کا کہنا یہ مِرے
دوست
مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد
و خررفت
(90)
یہ کل کی بات ہے پیسے میں نانِ گندم
آتی تھی
مگر اب ایک پیسے میں یہاں ملتی ہے اک
پاتھی
ہوئی ہے قدر گوبر کی جو تھی توقیر آٹے
کی
کہ جو قیمت تھی روٹی کی وہ اب قیمت
ہے اُپلے کی
(91)الہام سے عَالَم کی زندگی وابستہ
ہے
اِلہام کا سلسلہ ہے دائم
اِلہام سے سب جہاں ہیں قائم
محروم نہیں ہے کوئی اس سے
انساں1؎ ہو جماد2؎ یا بہائم3؎
1۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُورَھا وَ
تَقْوٰھا
                                    2۔بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحیٰ لَھَا                           3۔وَ اَوْ حیٰ رَبَّکَ الی النحل
(92) ابتلاء کا فائدہ
جوہرِ خاک نہیں کُھلتے کبھی اے خاکی
سُرمہ ساں اُس کو نہ کر دے کوئی دہقاں
جب تک
کس طرح ہوں گے عیاں تیرے بھی مخفی جَوہر
اِبتلا تُجھ کو کریں گے نہ پریشاں جب
تک
(93) شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت
ہے اورہمارے لئے سُود مند
جو اوامر ہیں شریعت کے وہ ہیں سارے
مُفید
جتنی باتیں ہیں نواہی کی وہ ہیں ساری
پلید
تیرے ہی سُکھ کےلئے ہے دین ورنہ اے
عزیز
ہے تِرے عملوں سے مُستَغنِی خداوندِ
حمید
(94) اللہ اور پرمیشر
جو پرمیشر ہے وہ نیکی بدی کا بدلہ دیتا
ہے
تناسخ کے لئے اک پاپ لیکن رکھ ہی لیتا
ہے
مِرا اللہ سارا اجر دے کر پھر بھی اک
نیکی
چھپا رکھتا ہے اور بدلہ میں جنت دے
ہی دیتا ہے
(95) اَنَا الموجود
خدا وہ ہے جو خود اپنا پتا دے
کلام اور پیشگوئی اور نِشاں سے
نہ وہ ہے قَعرِ گمنامی سے جس کو
ہماری عقل ہی باہر نکالے
(96) دِل شِکنی
رسّی جو ٹوٹ جائے تو ممکن ہے جوڑنا
البتہ اُس میں دیکھو گے تُم اِک عیاں
گرہ
ایسے ہی اِک غریب کا جب توڑ دو گے دِل
گر جڑ بھی جائے گا، تو رہے گی نِہاں
گرہ
(97)
دِل نہ میرا توڑیو اے دِل شِکن
گھر ہے یہ اللہ کا میرا نہیں
یاد کر لے قصۂ اصحابِ فیل
اُس کے گھر کو توڑنا اچھا نہیں
(98) وصیت کی اصلی وُقعت حصہ آمد
نہیں بلکہ حصہ جائدادہے
سولہویں اور دسویں حصہ کا کوئی جھگڑا
نہیں
ہیں وصیت کی مصیبت جائدادیں اور زمیں
حصّۂ آمد تو کہتا ہے کہ چل جنت کو چل
پر زمینیں اور مکاں کہتے ہیں نو، نو
1؎اور نہیں
No,
no
(99) کُفرانِ نعمت
عمر ساری تو کٹی پیٹ کو بھرتے بھرتے
گِھس گئے دانت مِرے نعمتیں چَرتے چَرتے
شُکرِ احساں کی جگہ حیف یہ ناشُکر زُباں
نہ تھکی پھر بھی شِکایت تِری کرتے کرتے
(100) ایمان علیٰ وجہِ البصیرت
قِصّوں کا چاہئے جو خدا مولوی سے پوچھ
اور عقل کا ہو گاڈ2؎ تو پھر نیچری سے
پوچھ
لیکن مشاہِدہ کا خدا – تجربہ کا گاڈ
اے دوست!یہ تُو جا کے کسی احمدی سے
پوچھ
God
(101) بہشتی مقبرہ
کس قدر اللہ اکبر اس زمیں کی شان ہے
چپّہ چپّہ پر وفا ہے عشق ہے ایمان ہے
کیسی کیسی صورتیں تھیں، اس میں ہیں
مدفون جو
ہے بہشتی مقبرہ، یا حُسن کی اِک کان
ہے
(102) تَوَکُّل
تَوَکُّل کے معنی ہیں بَکُلّی خداکے
دین کے کام کواپنے ذِمہ لے لینا اوراپنی روزی کو خدا کے ذمہ ڈال دینا۔ مطلب یہ ہے کہ
پورا اللہ کا نوکر ہو جانا مگر بعض لوگ ہر قسم کی روزی کا نام تَوَکُّل کا رزق رکھ
دیتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔
کام کر اللہ کا – دے گا وہ رِزق
نام اس کا ہے ”تَوَکُّل” اے سعید
مُخبری پیشہ، پولیس کی نوکری
کر تَوَکُّل کی نہ یوں مٹی پلید
(103) قرآنی مقطعات سورۂ فاتحہ کے
اجزاہیں
گر اصل فاتحہ، قرآن اس کی ہے تعبیر
مقطعات ہیں پھر سورتوں پہ کیوں تحریر؟
سو یاد رکھ کہ یہ اَلحمد ہی کے ہیں
ٹکڑے
یہ سورتیں اُنہی اجزا کی کرتی ہیں تفسیر
(104) کامل کتاب سوائے قرآن مجید
کے اورکوئی نہیں
مذہب کی کتابوں میں کہلائے گی وہ اعلیٰ
جو خود ہی دلائل دے اور خود ہی کرے
دعویٰ
رکھے جو نہ یہ خوبی، ردّی کا پُلندہ
ہے
ایں دفتر بے معنی – غرقِ مئے
ناب اولیٰ
(105) نفسِ راضیہ ہی مرضیہ بن سکتاہے
منہ سے کیا جپتا ہے ”اللہ کی رضا مل
جائے
بندہ خود اُس سے ہو راضی تو رضا تب
مانگے
ہے حقیقت یہ دُعاؤں کی تِری، اے کافر!
وہ تو راضی بھی ہے، پَر تُو نہیں راضی
اُس سے
(106) شُکر
میرا سب کچھ ہے امانت آپ کی
اور جو لے لو وہ بھی دَولت آپ کی
جو رہے باقی سو وہ بھی فَضل ہے
ہر طرح پر ہے عِنایت آپ کی
(107) کوثر
معنئ کوثر لغت میں آئے ہیں ”خیر کثیر
اوریہی فرقان میں حکمت1؎ کے معنی ہیں
لکھے
حکمتیں پس سیکھ لے کچھ دین اور قرآں
کی تُو
آخرت میں جامِ کوثر تاکہ حاصل کر سکے
وَ مَنْ یُّوْتَ
الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا۔
(108) مجازی اورحقیقی عاشق میں فرق
مجازی اور حقیقی میں نہ ہوکس طرح ناچاقی
کہ وہ شیدا ہے فانی کا، تو یہ ہے طالِبِ
باقی
کسی فرہاد و مجنوں کو بھلا ہم سے ہو
کیا نسبت
کہ وہ تھے عاشقِ ساغَر1؎ تو ہم ہیں
عاشقِ ساقی
1۔یعنی عاشقِ مجازی نعمت کا عاشق ہوتا ہے۔ اور
عاشقِ حقیقی منعم یعنی خدا کا۔
(109) سیاست
نہ ہو گر سخت نگرانی، جماعت رہ نہیں
سکتی
سزائیں گر نہ ملتی ہوں ریاست رہ نہیں
سکتی
شریروں سے رعایت ہو تو نیکوں کا خداحافظ
جماعت1؎ یا ریاست2؎ بے سیاست رہ نہیں سکتی
1۔ یعنی روحانی جماعت۔    2۔ یعنی دنیاوی حکومت۔
(110) نیچرکی شہادت وجودِ باری پر
وجودِحضرت باری پہ شاہِد ہے یہ سب عالَم
کہ اس میں اِرتِقا ہے، یہ مُنَظَّم
ہے مُسلسل ہے
نہیں آتی نظراس کی بناوٹ میں کوئی خامی
ہر اک جُز بھی مکمل ہے یہ پورا بھی
مکمل ہے
(111) چراغِ سحری
وقتِ سَحَرہے یارو – آندھی بھی چل رہی
ہے
باقی نہیں ہے روغن بتّی بھی جل چکی
ہے
بُجھنے کو ہے دِیا یہ تیاّر ہیں فرِشتے
جھونکے کی اِک کسرہے پھر ختم روشنی
ہے
 (112)
جمالی
اورجلالی صفات الٰہی
واعظ یہ کہہ رہا تھا کہ ”مولیٰ کریم
ہے
بخشے گا سب گناہ غفورٌ رَّحیم ہے
سن کر کہا کسی نے ”ادھورا نہ کر بیاں
اُس کا عذاب بھی تو عذابِ اَلِیم ہے
(113) الہام کے بغیرخداتعالیٰ اور
انسان کاسچاتعلق قائم نہیں رہ سکتا
ہو خدا لیکن نہ ہو وہ بولتا
ایسا ہونے سے نہ ہونا ہے بھلا
دِل کسی گونگے سے کیونکر لگ سکے
عشق مے خواہد کلامِ یار را
(114) تکمیل ہدایت اورتکمیلِ اِشاعتِ
ہدایت
ہوا آدم سے آغازِ نبوت
اور آنحضرؐت سے تکمیلِ ہدایت
مگر جب بن گئی دُنیا یہ اِک شہر
تو کی احمدؑ نے تکمیلِ اِشاعت
(115) مذہب اور اخلاق
یہ جو اَخلاق ہیں، یہ دین نہیں
اصل ہے دیں کی ”باخدا ہونا
یعنی مذہب ”خدا شناسی” ہے
نہ کہ لوگوں میں خوشنُما ہونا
(116)
اَخلاق خودمذہب نہیں مذہب کی گو بنیادہیں
اُن کے بھی اچھے ہوتے ہیں مذہب سے جو
آزاد ہیں
ہے حق شناسی اصل دیں لیکن نہ ہوں جو
باخدا
گو صاحبِ اَخ:لاق ہوں عُقبیٰ میں پھر
برباد ہیں
(117) گاندھی جی کا برت
گاندھیؔ جی باعلم و دانش’ زِیر کی’
عِزّ و وقار
برت سے کرتے ہیں برپاشورشیں یاں باربار1؎
خودکشی کرنے سے ملتی ہیں کہیں آزادیاں؟
وائے برعلمے کہ عالم را کند برباد و
خوار
1۔ مسٹر گاندھی بار بار مرن برت کی
دھمکیاں دے کر انگریزی حکومت کو مرعوب کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
(118) میرا نشیمن بیت مبارک میں
اپنا جو ہے نشمین مسجد کی شہ نشیں ہے
ہر مومن و مہاجر یاں میرا ہم نشیں1؎ ہے
منزل ہے برکتوں کی اللہ کا حَرَم یہ
جاں محوِ یادِ جاناں، دل یار سے قریں
ہے
1۔ حضرت میرصاحب عرصہ درازتک نمازمغرب کے بعدعشاء
کے وقت تک بیت مبارک قادیان کے شہ نشین پربیٹھ کر اپنی نہایت پرمعارف باتوں سے محظوظ
کیا کرتے تھے اورلوگ بڑے شوق سے اس روحانی محفل میں شریک ہوا کرتے تھے(اسماعیل پانی
پتی)
(119) بُری عادتوں کوراسخ ہونے سے
پہلے ترک کرو
مُقَدَّرمیں جو لکھا ہے وہ قسمت ٹل
نہیں سکتی
جَبَل ٹل جائے گا لیکن جبلّت ٹل نہیں
سکتی
ہمالہ توڑنا آساں ہے عادت چھوڑنا مُشکل
کہ ہوجاتی ہے جوراسخ وہ عِلّت ٹل نہیں
سکتی
(120) اِنَّ
اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہ اَتْقَاکُمْ
نہیں معیار عزّت کا حکومت’ حُسن یا
لشکر
نہ جاہ و قوم و طاقت ہے نہ اولاد و
زَر و گوہر
خداکے ہاں فقط پُرسِش ہے نیکی اور تقویٰ
کی
کہ جو تقویٰ میں ہوں برتر وہی عزّت
میں ہیں بڑھ کر
 (121)
الَاَ
بِذِکرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبْ
حقیقی چین دِل کاہے نہ دولت میں نہ
شاہی میں
نہ کھیلوں میں نہ نشوں میں نہ شوقِ
مرغ وماہی میں
نہ اطمینانِ قلبی مل سکے چاہت میں عورت
کی
تسلّی دِل کو ملتی ہے فقط یادِ الٰہی
میں
(122) آج کل کے نوجوان کی حالت اوراُن
کاسلوک ماؤں سے
ہیچ سب احسان ہیں شہوت سے ہے ساری غَرَض
بن گیا معشوق وہ پہلو سے جس کے جا لگے
مشرکوں کی طرح ہے یہ ناخَلَف اَولاد
بھی
پالا پوسا کس نے؟ اور گھٹنے سے کس کے
جا لگے
(123) تُراچہ
سیّد صاحب! خود کچھ کر کے آپ بنو محمود
ورنہ بڑوں کے عملوں پر تو شیخی ہے بے
سُود
گیدڑ بھی تو شب بھر یونہی روتے پھرتے
ہیں
پِدرم سُلطان، پِدرم سلطان، پِدرم سلطان
بُود
(124) اشتیاقِ ملاقات
جو آؤ تُم مِرے گھر میں تو پلکوں سے
زمیں جھاڑوں
اگر مہماں بنو دِل میں تو اپنی جان
تک واروں
خدارا، اب زیادہ تو نہ ترساؤ، نہ پھڑکاؤ
یہاں آ جاؤ خود ہی یا اجازت دو کہ میں
آؤں
(125) انسان کی حقیقت
جو دو شرمگاہوں سے نِکلے کوئی
تو عِزّت بھلا اُس کی کیا رہ گئی؟
غلاظت کا کیڑا نَجاست کی بوند
کرے گا وہ کس مُنہ سے کِبر و مَنی؟
(126) یقین
مومن کی جو دُعا ہے وہ ہوتی قَبول ہے
لیکن دُعائیں مانگنے کا اِک اُصول ہے
ہو تجھ کو یہ یقین کہ قادِر ہے وہ خدا
ورنہ یہ تیرا کام ہی سارا فُضول ہے
(127) درجہاں وبازبیروں ازجہاں
جب دِل خداسے لگ گیادُنیاکاکیا ہے ڈر
اولاد و مال و جاہ سے کچھ بھی نہیں
خَطَر
لیکن جگہ کسی کی نہ دِل میں رہے تِرے
کچھ بھی بَجُزحبیب کے آتا نہ ہو نَظَر
(128) عملی مساوات کانقشہ
دکھائی احمدیت نے مساواتِ مسلمانی
کہ سب کی اصل آدم ہے اور اُس کی خاک
اور پانی
نکل آئیں گے ایسے بعض جوڑے اس جماعت
میں
جولاہی زوجۂ سیّد، جولاہا زوجِ سیدانی
(129) خداکی معرفت کے سامنے انسان
کے گناہوں کی
کچھ بھی حیثیت نہیں
گناہوں کو نہ رو ہر دم پڑا تو سجدہ
گاہوں میں
عمل صالح کیے جا اور سما جا اُن نگاہوں
میں
کوئی دیوانہ ہی ہو گا تقابل جو کرے
گا یاں
خدا کی مَغفِرَت میں اور انساں کے
گناہوں میں
(130) میری کثرت گناہ
آپ خارج ہوا، اولاد رہی سب محروم
اِک عصیان نے آدم کے مچائی یہ دھوم
جرم میرے توہیں لاکھوں گُنااس سے بڑھ
کر
کِس لئے پھر نہ مرا دل ہو مَلُول و
مغموم
(131) ردّ ِوَحدَتُ الوُجود
تا ابد زِندہ رہیں گے تب بھی اے میرے
عزیز
ہم تو بندے ہی رہیں گے اور رہے گا وہ
خدا
ناقص و محدود و عاجِز اُس کی جو مخلوق
ہو
غور کر کے دیکھ لے کیونکر بنے گا وہ
خدا
(132) رازونیاز
میں تُم کو رکھتا دوست ہوں یہ تُم کو
بھی معلوم ہے
اور تُم ہو میرے مہرباں یہ مجھ کو بھی
معلوم ہے
پھر اس قدر بیگانگت اور اس قدر اِخفا
ہے کیوں؟
اَوروں سے پردہ کس لئے جب اُن کو بھی
معلوم ہے
(133) قناعت
شکر کر حالت پہ اپنی اے حریص!
کیوں تِری آنکھوں سے بہتے اشک ہیں
تو بھلا کیوں رشک غیروں پر کرے
جبکہ لاکھوں تجھ پہ کرتے رشک ہیں
(134) قبولیت دُعا
چاہتا ہو گر دُعاؤں کی قبولیت کوئی
اُس کو یوں کہہ دو کہ پہلے تو بنے وہ
احمدی
بعد اُس کے دو شرائط میں سے اِک پوری
کرے
یا ہو پورا مضطرب1؎ اور یا ہو کامِل
متّقی2؎
                   1۔افمن یجیب المضطر ازا دعاہ انما یتقبل اللہ من المتقین      
(135) عَالَمِ آخرت کی ضرورت
سو خون کر کے پیر پگاڑو1؎ گزر گیا
پھانسی ملی تب ایک کا بدلہ اُتر گیا
لیکن گر آخرت نہ ہو اور واں جزا نہ
ہو
ننانوے کا بولو، عِوض پھر کدھر گیا؟
1۔ پیر پگاڑو سندھ میں ‘حروں’ کا پیر
تھا۔ جسے گزشتہ دنوں بہت سے خونوں کے عوض پھانسی ملی۔
(136) اُمُّ الصِّفات
گرچہ بے حد ہیں خداوندی صفات
ہے مُزیّن جن سے اُس کی پاک ذات
اصل سب کا تین کو سمجھو، مگر
عِلم، قُدرت، رحم ہیں اُمُّ الصِّفات
(137) اسمِ اعظم
اسمِ اعظم حق تعالیٰ کا فقط اللہ ہے
سارے اسمائے صفاتی کایہ جلوہ گاہ ہے
یعنی پاک ہر عیب سے ہے مُتَّصِف ہر
حُسن سے
سب سے برتر، سب سے اعلیٰ سب سے عالی
جاہ ہے
(138) انسان کوصاحبِ حال ہونا چاہئے
تھا قلم میرا جو اِک دن ”چال مست
یہ لگا کہنے کہ بن جا ”حال مست
پھر نصیحت کی کہ ” مت ہونا کبھی
قال مست و شان مست و مال مست
(139) ترک واختیار
چھوڑا خدا کے واسطے کیا تُو نے میرے
یار؟
اور کیا کیا ہے اُس کے لئے تُو نے اِختیار؟
ثابِت نہیں اگر یہ ترا اِختیار و تَرک
دعوے کو بندگی کے اُٹھا اپنے منہ پہ
مار
(140) شادی خاں کلمۃ اللہ خاں
میرزا” کو کہا جو ”شادی خاں
اس میں کیا راز ہے بھلا پنہاں
غور کر تاکہ پائے تواُس میں
بعض اعلیٰ خصالِ افغاناں
(141) جوانی میں انساں خود کو جیسا
بنا لے، پیری میں بھی ویساہی رہتا ہے
عشق کا تیرے جوانی میں لگا تھا مجھے
تیر
وقت کچھ گزرے تو تکلیف بھی مِٹ جاتی
ہے
لیکن اب آ کے وہی درد ہوا پھر ظاہِر
کہ بڑھاپے میں ہر اِک چوٹ اُبھر آتی
ہے
(142) اَطِیْعُوا اﷲ
وَاَطِیْعُوا الرَّسُولَ و اولی الامر مِنْکُمْ
اطاعت کرو جملہ احکام کی
خدا کی، رسولوں کی، حُکّام کی
بسر تاکہ ہو اَمن کی زندگی
یہی تو فضیلت ہے اِسلام کی
(143) خلق الانسان ضعیفا
کمزور کو ہر وقت ہے یاں خوفِ ہلاکت
انساں بھی ہے کمزور کرے اپنی حفاظت
چمٹا رہے اللہ کے دامن سے ہمیشہ
اس ضُعف سے مطلب نہیں، بدیوں کی اجازت
(144)
پیدا نہیں کیا گیا تو اس لئے ضعیف
کرتا رہے گناہ کو سمجھے اُسے خفیف
مطلب ہے اس کا چونکہ ہے کمزور تو بہت
آ جا قوی کی گود میں تا رہ سکے عفیف
(145) انسان کے لئے جائزلذّات اتنی
موجودہیں
کہ اُسے حرام میں پڑنے کی ضرورت
نہیں
قدرت نے مجھ کو ایسا بنایا ہے باکمال
جملہ حواس رہتے ہیں ہر دم مِرے نہال
ہر حرکت و سُکون میں فرحت ہے اور مزا
لذّت سُرورِ خواب سے تا لذّتِ وصال
(146) ظِلِّ مسجدنبوی اور ظِلِّ روضۂ
نبوی
ہے اگر سَچ مُچ تجھے کچھ مسجدِ نبوی
کا شوق
پڑھ نمازیں ساری بیت الذّکر میں بادرد
و ذوق
گنبدِ خِضرا کے عاشق جا بہشتی مقبرے
کر زیارت عِشق کا ڈالے ہوئے گردن میں
طوق
(147) گردشِ ایام
جان و دل اُن پر فدا کرتے تھے ہم
اپنے حق میں خود بھلا کرتے تھے ہم
اب تو اُن کے دِل سے ہیں اُترے ہوئے
جن کی آنکھوں میں پِھرا کرتے تھے ہم
(148) دُنیا کے کام کبھی ختم نہیں
ہوتے
کام دُنیا کے تو چلتے جائیں گے
چار دن پہلے مَرے تو کیا ہوا
آج گو دس کام ہیں باقی تِرے
بعد دس دن کے وہ ہوں گے پندرہ
(149) جنت و دوزخ
مَر کر سب کچھ ظاہر ہو، حالت اچھی یا
زبون
جنت ہے یا دوزخ کلاَّ
سَوْفَ تَعْلَمُوْن
بندے اچھے جنت میں فِیْھَا
عَیْنٌ جَارِیَہ
گندے مندے دوزخ میں، تُصْلیٰ
نَارًا حَامِیَہ
(150) احمدیوں کاعزم
گر ہے’ تو خوش ہیں یار ۔ نہیں ہے تو
غم نہیں
احمدؑ کے ہم غلام ہیں شاہوں سے کم نہیں
دُنیا کے فتح کرنے کے دَم خَم دلوں
میں ہیں
گو دیکھنے کو ہاتھ میں دام و دِرَم
نہیں
(151) بڑھاپااورموت
موم شمعِ تن کا میرا سب پگھل کر بہہ
گیا
جان بتّی سے بندھی، اب منتظر ہے حکم
کی
جب نِدا آئے گی عِزرائیل کی بھڑکے گی
لَو
جسم سے ہو کر الگ بَرزَخ میں جائے گی
چلی
(152) امتحان
نہ رہا عشق میں تِرے جاناں
حال اپنا بیان کے قابِل
مجھ سے عاجِز کا امتحاں ہے کیوں؟
میں نہیں امتحان کے قابِل
(153) خداکاشکرناممکن ہے
رُؤاں رُؤاں جو کھڑا ہو کے مِرا، حمد
کرے
تو شکر تیرا نہ پھر بھی ادا ہو اَے
جاناں
!
جو ایک پل کے بھی انعام گن نہ سکتا
ہو
وہ عمر بھر کے بھلا گِن سکے کہاں احساں؟
(154) توحیدِاسلامی
بے عیب حسین و بے نہایت محسن
کوئی نہ ہوا، نہ ہے، نہ ہو گا تجھ بِن
کہتے ہیں اسی کو اہلِ دانش توحید
عاشق ہے تِرا اسی لئے ہر مومِن
(155) کبائر
گر کبائر سے رہے گا تو بچا
پھر صغائر سے بچا لے گا خدا
یاد کر لے نام اُن کے اے عزیز!
شِرک و سرقہ ۔قتل و بہتان و زِنا
(156) عصمت
ہر عَمل میرا ہے دھوکا اور فریب
خَلق سے، خالِق سے، اپنے آپ سے
ما سِوا نبیوں کے بچ سکتا ہے کون؟
مَعصیت سے جُرم سے اور پاپ سے
(157) غیرمبائعیین کا آغاز اور انجام
جب ہو گیا ظہور لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ
پیغامیوں نے کر دیا رستے کو اپنے گم
نکلے جو قادیاں سے پراگندہ ہو گئے
اِلہام ٹھیک نکلا
لَیُمَزِّقَنَّھُمْ1
؎
1؎ یہ الہام دراصل لَیُمَزَّقَنَّھُمْ ہے
مگر شعر کی روانی اور وزن کی خاطر اسے
لَیُمَزِّ قَنَّھُمْ پڑھا
جائے۔ (محمد اسمٰعیل)
(158) نافع چیز ہی دُنیامیں دیرتک
رہتی ہے
مفید اشیاء ہی رہتی ہیں جہاں میں باقی
اور مُمتَدْ
وَاَمّامَا فَیَمْکُثْ سے
سمجھ لو فائدہ کی حد
مگر جو شے ہے لا حاصل، وہ ہے مہمان
گھنٹوں کی
اگر مانَدشَبے مانَد، شَبے دیگر نَمی
مانَد
(159) ریڈیو اور رمضان
میں کئی سال سے بیماری کے باعث رمضان
کے روزوں سے معذورہوں اس لئے بعض احباب نے یہ وطیرہ اختیارکیاکہ چونکہ وہ خود روزے
رکھتے تھے اس لئے اپنا ریڈیو رمضان کی حُرمت کی وجہ سے میرے ہاں رکھ دیتے تھے۔ایک سال
اتفاقاً کوئی ریڈیو میرے ہاں نہ پہنچا۔اس پرمیں نے یہ اشعارکہے۔
ماہِ رمضاں میں مراگھرمجلسِ شیطان ہے
لوگ رکھ جاتے ہیں اپنے ریڈیو میرے یہاں
تنگ گر کرتا ہو روزوں میں تمہیں بھی
یہ شریر
ہے مناسب پھر کہ اس کو بھیج دو میرے
یہاں
(160) قادیان کی محبت
قبر کی وحشت ،فراقِ دوستاں، سکراتِ
موت
آ گئے یہ سب مصائب سر پہ اپنے ایک دَم
وقتِ رِحلَت رُوح میری جسم سے کہنے
لگی
تیرے چھٹنے سے سوا ہے قادیاں چھٹنے
کا غم
(161) دُنیامیں پیسے کی عزّت ہے
جب آیا فقر میرے ہاں اُولُوالاَرحام
تک
کھِسکے
نہ میں اُن کا کُفَواب ہوں نہ وہ اب
ہیں کُفَو میرے
ہماری جیب تھی وزنی تو ہم بھی تھے
”بنوہاشم
اور اب ‘اَلْفَقْروفَخْرِی
ہے تو رشتے تک نہیں ملتے
(162) انسان ہرجگہ اورہرعالم میں
آرام اورراحت کاطالب ہے
اینٹ رکھنا سر کے نیچے قبر میں
ورنہ مجھ کو نیند کیونکر آئے گی
گو کفن کافی ہے بستر کی جگہ
ایک تکیہ ہو تو کَل پڑ جائے گی
(163) خدا اور بندوں میں فرق
میرا ستّار تو کہتا ہے کہ ”تُو ہے
مِرا دوست
دوست پر کہتے ہیں مجھ سے کہ” ہے تُو
نَفس پرست
دونوں سچّے ہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے
ایک ہے نرم تو ہیں دوسرے” تنقید”
میں سخت
(164) خودنمائی
جو بیچتا ہے ۔بیچ ۔ پہ گندم نُما نہ
بن
غالِبؔ بنے تو ڈر نہیں غالِب نُما نہ
بن
بہتر یہ ہے نُمود و نُمائش کو چھوڑ
دے
جو چاہے رُوپ دھار لے پر خودنُما نہ
بن
(165) ہرچیزاپنی مناسب جگہ پر موزوں
لگتی ہے
جمالی نبی ہو وہ تلوار پہنے؟
مسلماں ہو یورپ کا شلوار پہنے؟
نہ ہو عِلم گر سبز پگڑی کے اندر
تو کیا فائدہ یونہی بیکار پہنے!
(166) عشقِ حقیقی کی پہچان
ہو گئے جو عشقِ مولیٰ میں فنا
عیش دُنیا سے اُنہیں رغبت کہاں
کُشتَگان خَنجرِ تسلیم کو
رنگ و بُو میں غیر کے لذّت کہاں
(167) چاہئے”اور”ہے”میں
بہت فرق ہے
کہتی ہے عقل یہ کہ کوئی ”چاہئے” خدا
لیکن کلامِ حق سے ہے ثابت کہ ”ہے”
خدا
اتنا بڑا یہ فرق ہے جیسے کے اے عزیز!
کوئی کہے کہ ”ہو گا خدا” کوئی ”اے
خدا
(168) نورنبوت
ڈاکٹر اقبال نے باتیں ہیں کچھ اچھی
کہیں
بوالکلام آزاد بھی لکھتے ہیں اِملا
دلنشیں
جس قدر نکتے ہیں دینی اُن کی تصنیفات
میں
فیض ہیں مرزا غلام احمدؑ کا وہ سب بالیقیں
(169) جوانی اوربڑھاپا
کبھی بادام ثابت،توڑتے تھے اپنے دانتوں
سے
ولے اب توگرِی تک کاچباناہم سے مشکل
ہے
سناہے اگلے لوگوں کوکہ تھے وہ ساٹھے
اور پاٹھے1؎
مگرپچپن2؎ سے پہلے ہی یہاں تو دانتا
کِلکِل ہے
1۔ ساٹھ سال کے ہوکربھی پٹھے جوان تھے۔ 2۔ یعنی پنشن کاوقت۔
(170) مرتے وقت شراب
بیمار کو گو خَمر بھی جائز ہے مَرَض
میں
پر نَزع میں کیا فائدہ دینے کا برانڈی
افلاک پہ کیا کام کسی گندہ1؎ دہن کا
کیوں خُلد میں راہ پائے اُبلتی ہوئی
ہانڈی2؎
1۔ شراب پینے والے کا۔  2۔ یعنی جس معدہ میں شراب ہو۔
(171) غیرفانی محسن ہی ہمارامحبوب
ہو سکتاہے
عشق ہر رنگ میں جنت ہے اگریار ہو وہ
ورنہ ہے آتشِ دوزخ یہ محبت میری
کہ سوا حق کے ہر اک چیز فنا کا ہے شکار
پوری ہوتی نہیں فانی سے ضرورت میری
مجھ کو درکار ہیں وہ حسن وہ احساں جن
سے
دائمی فیض کی مَورِد رہے فطرت میری
(172) اسلام
اس دین میں الہام ہے بُرہاں ہے نِشاں
ہے
تنظیم نمازیں ہیں تو تبلیغ اذاں ہے
اسلام کے اوصاف کو کیا گِن سکے کوئی
دلکش ہے ہر اک بات ”عیاں راچہ بیاں”
ہے
 (173)
پانی
کی اہمیت
مَرَض الموت میں عزیزو – تُم
تنگ رکھنا نہ مجھ کو پانی سے
بس یہی اک علاج ہے کافی
کوچ ہو جب جہانِ فانی سے
(174) کابل کے مظالم
قتل دادا نے کیا اِک احمدی
باپ نے پھر دوسرے کی جان لی
خونِ ناحق تین پوتے نے کئے
سلطنت یوں ظالِموں سے چھِن گئی
(175) بڑھاپے میں توبہ اوراستغفار
چند دن باقی ہے بابا! زندگی
گر عمل ہوتا نہیں توبہ سہی
آخرت کا جب نہ ہو سامان کچھ
ہے غنیمت پھر تو اِستِغفار ہی
(176) قانون اورمذہب
قانون مُجرموں کو دیتا فقط سزا ہے
روکے گنہ سے اُس میں طاقت کہاں بھلا
ہے
تقویٰ ہی روکتا ہے اِقدام سے بدی کے
جُرم و گُنہ کی جڑ کو مذہب ہی کاٹتا
ہے
(177) اصل اور نقل
میں” تو میری روح ہے اور جسم
ہے اُس کا مکاں
میرا فوٹو اِس ”مکاں” کی یکرُخی تصویر
ہے
مَیںؔ کو اور خالِق کو مَیںؔ کے، پوچھتا
کوئی نہیں
لیکن اِس فوٹو کی میرے کس قدر توقیر
ہے
(178) فتویٰ اور تقویٰ
ذرا سی چھینٹ کپڑے پرپڑی ناپاک پانی
کی
توحضرت بوحنیفہؒ نے اُسے دجلے پہ جا
دھویا
کوئی بولاکہ”فتویٰ آپ کاکہتاہے پاک
اِس کو
توفرمانے لگے ہنس کر”یہ تقویٰ ہے وہ
فتویٰ تھا
(179) تناسخ کا چکّر
تناسخ مان کراپنے تئیں کرتاہے کیوں
ہیٹا1؎
کہ کنوِکشن2؎ کی خاطر چاہئے مضبوط سا
ڈیٹا3؎
بھلا غیرت تِری ایسا عقیدہ کیونکر مانے
گی؟
کبھی شوہر ہو تُو ماں کا کبھی جورُو
کا ہو بیٹا
1۔ ہیٹا : ذلیل     2۔ کنوکشن Conviction : یقین و ایمان
3۔ڈیٹا Data : دلائل،نبوت وجوہ
(180) مُردہ اور زندہ خدا
یورپ کا مَرا ہوا خدا ہے
سُولی پہ ٹنگا ہوا خدا ہے
مغرب کے یہ دیکھ کر عقائد
غصّے میں بھرا ہوا خدا ہے
(181) خالقِ کون ومکاں
مکاںؔ کو اور زماںؔ کو حق تعالیٰ نے
کیا پیدا
مقید کر دیا مخلوق کو اِن جیل خانوں
میں
سو ہم محدود ہیں، فانی ہیں اور بندے
ہیں خالِق کے
اکیلا ہے وہی آزاد ان سب کارخانوں میں
(182) لاَ تَذِرُ وَازِرَۃٌ
وِّزْرَ اُخْرٰی
کیا دائیں بائیں دیکھ رہے ہو اے مہرباں
یہ پُل صراط ہے – نہیں قُلیوں کا یہ
مکاں
کوئی نہیں اُٹھاتا کسی دوسرے کا بوجھ
اپنی صلیب آپ اُٹھانی پڑے گی یاں
(183) نیک میاں بیوی
عورت جو نیکو کار ہو خاوند کی جو عزّت
کرے
گھر میں بسے اُلفت کرے بچے جنے خدمت
کرے
شوہر جو صالح نیک ہو کُل مہر دے نِگراں
بنے
تعلیم دے نیکی کرے سب خرچ دے شفقت کرے
 (184)
نافرمان
اولاد
جو اولاد ہو نیک و فرمان بر
وہ ہیں نورِ چشم اور لختِ جگر
نہیں تو تری آستیں کے ہیں سانپ
و یا بغلی گھونسے ہیں وہ بَد گُہر
(185) ذکرِالٰہی کافائدہ
کمزور ہو ایماں اگر،تب ذِکر کی تاکید
کر
ایمان میں جب جاں پڑے پھر قُرب کی اُمید
کر
حَقُّ الیقیں گر چاہتا ہے اور اِطمینانِ
قلب
تسبیح کر، تہلیل کر، تکبیر کر، تحمید
کر
(186) بولومگراچھی بات
نہ بولے اگر وہ تو حیوان ہے
اگر لغو بولے تو شیطان ہے
کرے نیک باتیں، رہے مُعتدل
کہ حیوانِ ناطِق یہ اِنسان ہے
(187) اگرقلبی اسرارفاش ہوجائیں تو
لوگوں کا
ایک جگہ رہنا محال ہوجائے
مِرے دِل کے گناہوں کو جو تُم پڑھ لو
تو کہہ دو گے
کہ ”یا تو اس زمیں پر ہم رہیں گے یا
رہو گے تم
تمہارا دِل بھی گر محشر میں مَیں پڑھ
لوں تو کہہ دوں گا
کہ ”اب جنت میں یا تو ہم رہیں گے یا
رہو گے تم
(188) زکوٰۃِ حُسن یعنی احساناتِ
خداوندی
زکوٰۃِ حُسن لینے کو شہِ خوباں کے ہاتھوں
سے
سراپا بن گیا ہوں’ دوستو’ کاسہ گدائی
کا
غریبی نے مِری اُس کو کیا ہے مہرباں
مجھ پر
بھلا پھر کیوں مجھے شکوہ ہو اپنی بے
نوائی کا
(189) کانگریس کے نمائشی ممبر
چار آنے کانگرس کے ٹکٹ کے کیے ادا
کھدر کی گاندھی کیپ کو سر پر لیا چڑھا
ہندوستاں سے نکلو” کا پھر
نعرہ مار کر
میں بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا
(190)
آج دنیا کو میں نے دے دی طلاق
سب حساب اُس کا کر دیا بے باق
اب نہ مانگوں گا اُس سے مَیں کچھ بھی
مل گیا ہے مجھے میرا رزّاق
(191)
آج دے دی میں نے دُنیا کو طلاق
عشق سب جاتا رہا اور اشتیاق
اس قدر نفرت مجھے اس سے ہوئی
کر دیا اولاد کو بھی اُس کی عاق
(192)
شیخ فانی مثلِ حیواں ہے پلید
عقل گُم اور علم ہے سب ناپدید
اس سے بدتر شیخ زانی ہے مگر
کھیلتا ہے لڑکیوں سے وہ پلید
(193)
شیخ فانی گرچہ اک حیوان ہے
پر وہ حیواں ہو کے بھی انسان ہے
شیخ زانی، شیخ فانی سے بُرا
ہو کے انساں پھر بھی وہ شیطان ہے
(194)
حکومت شریروں کی رہتی نہیں
یہ دنیا تعدّی کو سہتی نہیں
وہ ہٹلر، وہ ڈوچے، وہ ٹوچو کہاں
سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں
(195)
مال و دولت آدمی کا ہے حَسَب
سیم و زرّ ہے قوم اُس کی اور نَسَب
دین و علم و خُلق سب بے کار ہیں
رزق ہے دنیا میں عزّت کا سبب
(196) تقدیر معلّق و مبرم
تدبیر سے وابستہ ہو تقدیر جو کوئی
تقدیر مُعَلَّق اُسے کہتے ہیں خِرَد
مند
لیکن جو قَضَا ٹل ہی نہ سکتی ہو کبھی
بھی
مُبرم ہے وہ تقدیر کہ رستے ہیں سب ہی
بند
(197)
یورپ میں اک صلح ہوئی اور وہ بھی حق
کیسی عجیب طرح ہوئی! اور وہ بھی حق
لیکن دراصل مصلحِ موعود کے طفیل
ہندوستاں کی فتح ہوئی، اور
وہ بھی حق
(2جون 1945ء کو دن کے دس بجے
میں آرام کرسی پر بیٹھا ہوا اُونگھ رہا تھا، کہ میرے سامنے لیتھو کے پریس کی کاپی کا
ایک صفحہ آیا۔ اس میں سب سے اُوپر یہ مصرع لکھا تھا کہ ”ہندوستاں کی فتح ہوئی اور
وہ بھی حق”۔ حق کا لفظ بہت موٹا لکھا تھا۔ ہندوستان میں جو آج کل نہایت کثرت کے ساتھ
سیاسی گفتگوئیں ہو رہی ہیں بظاہر یہ تحریر انہی کے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
(محمد اسمٰعیل 30 جولائی 1945ء)
(یہ پیشگوئی جو 1945ء میں کی گئی تھی
1947ء میں نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی جب کہ ہندوستان کو آزادی کی فتح نصیب ہوئی
اور حقدار کو اُس کا حق مل گیا۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی)
(198) التجا
آغوشِ مادری میں مجھ کو جو تُو لٹا
دے
قدموں میں میری جان کے مجھ کو سُلا
دے
اے مقبرہ کے والی، دوں گا تجھے دُعا
یہ
پہلو میں اک نبی کے تجھ کو بھی جا خدا
دے
(199)
1945ء میں کپڑا نہایت نایاب اور
مہنگا ہو گیا۔ اُس موقع پر میر صاحب نے یہ شعر کہے۔
ساعت کسے معلوم ہے اپنی اجل کی جانِ
من
کپڑے کی تنگی ہے بہت، بنوا کے رکھ اپنا
کفن
ایسا نہ ہو، بروقت وہ بزّاز جو بدذات
ہیں
لٹھے کے کوٹے میں کریں چوری، تغلب یا
غبن
اس لئے حضرت میر صاحب نے اپنا کفن پہلے
بنوا کے رکھ لیا تھا (محمد اسمٰعیل)
(200) قلمی آم کا اسمٰعیل پڈنگ
لنگڑا نچوڑ کر تم، بالائی اُس میں ڈالو
کچھ کیوڑہ چھڑک کر، قدرے شکر ملا لو
آخر میں برف سے پھر ٹھنڈا کرو پیالہ
اللہ کا نام لے کر، چمچے سے اُس کو
کھا لو
(201)
شاعر بنے، عاشق بنے، واعظ بنے، عالم
بنے
پاپڑ سب ہی بیلے، مگر کندن نہ پھر بھی
بن سکے
آخر میں دروازے پہ تیرے آ پڑے صورت
سوال
فضلوں سے خاکی تاکہ یہ ناری سے نوری
بن سکے
(202)
بال ہوتے گئے سفید مِرے
قلب ہوتا گیا سیہ میرا
اُلٹی گنگا لگی یہ کیوں بہنے؟
حال کیوں ہو گیا تبہ میرا؟
(203) رضائے الٰہی
خوشنودیئ عارضی پہ مولا کی تُم
کرنا نہ کہیں غرور سے رستہ گم
کیا فائدہ ٹمپریری ویلڈن 1؎ کا ہے
درجہ ہے رضا کا اِعْمَلُو
مَا شِئْتُمْ
1۔ Temporary Weldon
(204) دُعا
ذِلت نہ چکھائیو ہمیں تو خالِق!
صدقہ نہ کھلائیو ہمیں تو رازق
مالک! نہ دکھائیو ہمیں تو دوزخ
ہم تیرے ہی منہ کے ہیں فدائی عاشق
(205)
مثالِ حرم کعبۂ دل یہ میرا
خدا کا بھی گھر تھا، بُتوں کا بھی گھر
تھا
بروزِ محمدؐ نے یہ بُت نکالے
نہیں تو جہنم ٹھکانا تھا اپنا
(206) تاریخ طبع بخارِ دِل حصہ دوم
1945ء
صابر، شاکر، اکمل، گوہر
کدعہ کے ہیں سب یہ سخنور
ان کے آگے میرا نغمہ
”گھر کی مرغی دال برابر”

اپنا تبصرہ بھیجیں