117۔ (2) واویلا

بخارِدل
صفحہ294۔299

117۔
(2) واویلا

1905ء
کا واقعہ ہے۔ میں میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور موری دروازہ کے اندر اکیلا ایک
مکان میں رہتا تھا۔ میرے پاس باغؔ نام ایک جولاہے کا لڑکا کھانا پکانے پر نوکر تھا۔
وہ اتفاقاً بیمار ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔ میں نے اگرچہ اس کے ہاتھ قادیان نہایت تاکیدی
خط لکھ دیا تھا کہ کسی اور ملازم کو اُس کی جگہ بھیج دیں۔ مگر تین دن تک کوئی نہ پہنچا۔
21جنوری 1905ء کی تاریخ تھی اور سخت سردی کا موسم تھا۔ بارش ہو رہی تھی کہ میں نے یہ
شکایت نامہ لکھ کر اپنے ایک ”عزیز محترم”(یہ ”عزیز محترم” صاحبزادہ بشیر الدین
محمود احمد تھے جو بعد میں ”خلیفۃالمسیح الثانی” کے نام سے تمام دنیا میں مشہور ہوئے۔
بچپن میں دونوں آپس میں نہایت ہی گہرے دوست تھے اور یہ اُلفت و محبت آخر تک قائم رہی۔
محمد اسمٰعیل پانی پتی) کے نام ڈاک میں روانہ کیا اور آج چالیس سال کے بعد 1944ء میں
اسے شائع کرنے کی نوبت آئی۔ لیجئے سُنیے:-
دوستو کیا سناؤں اپنا حال
سہہ رہا ہوں مَیں کیسا رَنج و مَلال
باغ جب سے اُجڑ گیا میرا
بس مصیبت نے مجھ کو آ گھیرا
ایک نوکر کے یاں نہ ہونے سے
کتنی تکلیف ہو رہی ہے مجھے
گرچہ تاکیدی ایک خط لکھا تھا
اُس کی تُم نے مگر نہ کی پروا
تُم سے اب رکھے کیا کوئی اُمید
ہم ہیں روزے سے تُم مناؤ عید
کیا سناؤں کہ کیا گزرتی ہے
زندگی مرتے جیتے کٹتی ہے
جس گھڑی سے ہوا ہے ‘باغؔ’ رواں
گُل کھِلاہے عجب طرح کا یاں!
پہلے دن شام کو جو آیا گھر
فاقہ مستی کی کچھ نہیں تھی خبر
سیدھا پہنچا مَیں ایک دوست کے ہاں
تاکہ روٹی کا کچھ بنے ساماں
جب تلک آدمی کوئی آوے
کھانا تب تک مجھے وہ پہنچاوے
اُن کے ہاں جا کے یہ ہوا معلوم
کہ یہاں بھی اُمید ہے مَوہُوم
گھر میں اُن کے ہے سخت بیماری
اس سبب سے اُنہیں ہے لاچاری
الغرض واں سے جب پھرا ناکام
ضُعف سے ہو رہا تھا کام تَمام
دل نے آخر کہا کہ ہو ہُشیار
گھر میں سامان تو ہے سب تیاّر
فائدہ کیا کہ یوں پِھرے گھر گھر
خود پکا لے تو اس سے کیا بہتر
اُٹھ کے ہِمّت سے پھر گیا بازار
انڈے لایا مَیں دے کے پیسے چار1؎
لوہے کی ایک انگیٹھی گھر میں تھی
اور قدرے پڑا ہوا تھا گھی
کوئلوں کا لگا ہوا تھا ڈھیر
اور چاول بھی رکھے تھے دو سیر
آدھی بوتل جو تیل کی پھونکی
تب کہیں گھنٹہ بھر میں آگ جلی
بھر گیا گھر دُھوئیں سے سر تا سر
ہو گیا آنسوؤں سے چہرہ تر
آنکھ تھی سُرخ ناک تھی جاری
تیل کی بُو نے عقل تھی ماری
جس گھڑی مانجنے پڑے برتن
آ گئیں یاد مادرِ شَفیَن
ہاتھ مُنہ کپڑے سب ہوئے کالے
جیسے ہوتے ہیں کوئلے والے
دو گھڑوں کا لُنڈھا دیا پانی
تب ہوئی صاف جا کے اک ہانڈی
چاولوں کو جو مَیں لگا دھونے
دھوتے دھوتے میں بہہ گئے آدھے
اَلغرض بعد قصۂِ بِسیار!
کر دیا دیگچی کو چولہے سوار!
گزرے ہوں گے ابھی نہ پانچ منٹ
کہ لگی ہونے دَر پہ کَھٹ کَھٹ کَھٹ
ایک صاحب یکایک آ دھمکے
اور آتے ہی کان کھانے لگے
ظاہر اگرچہ اُن سے تھیں باتیں
دل مگر لگ رہا تھا ہانڈی میں
مُشکلوں سے اُنہیں کیا رُخصت
پر نہ پوچھو برنج کی حالت
نیچے کُھرچن کی بن گئی پپڑی
اُوپر اُوپر کے بن گئی لیٹی
بعد اُس کے جو انڈے رکھے تھے
اِک رکابی میں لے کے بھُون لئے
حق نے جو کچھ دِیا لِیا میں نے
کھا کے شکرِ خدا کیا میں نے
باقی چاول بچے سو رکھ چھوڑے
صبح کو دُودھ سے وہ کھائے گئے
شام کو پھر وہی تھا فکرِ طَعام
لیک ہِمّت نہ تھی کہ کرتا کام
انتڑیاں پڑھ رہی تھیں یا حق ہُو
اور اندھیرا بھی چھا گیا ہر سُو
اوڑھ چادر گیا انارکلی
لے کے پہلو میں کاسۂ خالی
شوربا چربی دار اور پھُلکے
سب سے چُھپ کے چُھپا کے مُول لئے
نصف سالن رکھا برائے سحر
نصف باقی سے کی وہ رات بسر
لے لئے فجر کو خمیری نان
اور دن بھر کا یوں کیا سامان
شام کو پانچ جب بجے ٹن ٹن
چڑھ کے ٹمٹم پہ پہنچا اسٹیشن
ایک خریدا پلیٹ فارم ٹکٹ
اور ہوٹل میں جا گُھسا جھٹ پٹ
اتنا کھایا کہ اِشتِہا نہ رہی
اِشتِہا کیا کہ اِنتِہا نہ رہی
آج تو خوب مینہہ برستا ہے
دانت سے دانت میرا بجتا ہے
لا کے کھائی کچوریاں ہیں سرد
فَمِ معدہ میں ہو گیا ہے درد
پاس کوئی نہیں جو لائے دوا
یا کہ دے سینکنے کو آگ جلا
کوئی تکلیف رات کو ہو اگر
کوئی ایسا نہیں جو لیوے خبر
ہُو کا عالَم ہے آج کا دن رات
ایک میں ہوں یا خدا کی ذات
میں تو آیا یہاں تھا پڑھنے کو
نہ کہ کھانے کا فکر کرنے کو
ایسی تعلیم چولہے میں جائے
جبکہ چولہے کا فکر سر کھائے
حلوہ سوہن بھی کل سے ختم ہوا
ورنہ اُس کا بھی کچھ سہارا تھا
تیل مٹی کا لینے جائے کون؟
کپڑے دھوبی کے ہاں سے لائے کون؟
کون کُوڑے کو گھر سے صاف کرے؟
کون تہہ بستر و لحاف کرے؟
کون گھر کی کرے نگہبانی؟
کون تازہ وضو کو دے پانی؟
کون بازار جا کے سودا لائے
ڈاک میں خط کو کون ڈال آئے؟
بس خدا کے لئے کرو جلدی
باغؔ ہو یا چراغؔ یا سندھیؔ
آدمی ہو وہ یا کہ ہو حیوان
لیک رکھتا ہو صورتِ انسان
ہاتھ رکھتا ہو وہ پکانے کو
پَیر رکھتا ہو آنے جانے کو
آنکھ منہ پر ہو دیکھنے کے لئے
کان ہوں تاکہ بات سُن لیوے
عقل کچھ ہو، تو اور بھی اچھا
گونگا بیشک ہو کچھ نہیں پروا
منہ میں ہوں دانت سب یا کچھ کم
اس سے مطلب نہیں ہیں رکھتے ہم
سر سے گنجا ہو یا ہوں سر پر بال
خواہ آنکھوں میں ہو پڑے پڑبال
خواہ نائی ہو ڈوم، یا گوجر
ہو جُلاہا تو اور بھی بہتر
غالباً ہے کہ باغِ بافندہ
ہو گیا ہو گا اب تلک اچھا
بھیج دو اُس کو ڈاک کے رستے
سیدھا یاں آن کر کے وہ دم لے
یہ مصیبت جو لکھ کے ہے بھیجی
اس پہ ہر گز کرے نہ کوئی ہنسی
بے وطن آدمی جو ہوتا ہے
اُس کو سب کچھ ہی کرنا پڑتا ہے
اس لئے ہی تو یہ مثل ہے بنی
آدھی گھر کی نہ ساری باہر کی
مطلب اتنا ہے اس کہانی سے
ہُوں بہت تنگ دانے پانی سے
آشناؔ2؎ کی خبر نہ لے محمودؔ3؎
پھر تو یہ مرثیہ گیا بے سُود
اس خط کے قادیان پہنچنے کی دیرتھی کہ
تیسرے دن آدمی آگیا۔
(1)۔    عجب زمانہ تھا، اُس وقت ایک پیسہ کا انڈہ آیا کرتا
تھا۔ آج 31 پیسے کا ایک آتا ہے۔ (محمد اسمٰعیل پانی پتی)
(2)۔   شروع شروع میں، مَیں نے اپنا تخلص
آشناؔ رکھا تھا مگر بعد میں اُسے کبھی استعمال نہیں کیا۔ (میر محمد اسمٰعیل)
(3) ۔  محمود سے مراد یہاں حضرت مرزا بشیر
الدین محمود احمد ہیں جو بعدمیں خلیفۃالمسیح الثانی ہوئے جن کو حضرت میر صاحب نے یہ
مزاحیہ نظم لاہور سے لکھ کر قادیان بھیجی تھی۔ افسوس! آج دونوں مقدس اور محترم وجود
ہم میں نہیں ہیں۔ اللہ پاک قادیان اور ربوہ میں اُن دونوں کی تربتوں پر شب و روز نُور
کی بارش برسائے۔ آمین (اسمٰعیل پانی پتی)

اپنا تبصرہ بھیجیں