7۔ پاک محمدصلی اللہ علہ وسلم مصطفی نبیوں کا سردار

درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ14۔19

پاک محمدصلی اللہ علہ وسلم
مصطفی نبیوں کا سردار

(1)
ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی پاک تعلیم کا ایک بیش بہا ثمرہ اور آپ کا ایک بڑا احسان (منجملہ بے شمار احسانات
کے)یہ بھی ہے کہ آپ پر سچا ایمان لانے والا کبھی رنج و غم یاس وناامیدی کا شکار ہو
کر نہیں مرتا۔کیابلحاظ اس کے کہ ایک مسلمان کا مقصد اصلی دنیوی اغراض یا تعلقات سے
بہت اعلی اور برتر ہے اور کیا اس لئے کہ مسلمان کا خدا حی و قیوم و قادر و توانا ہے
اور اس کے ایمان کا درجہ بلند۔مبارکہ
جب وقت مصائب کی صورت اک بندے کو دکھلاتا
ہے
جب تاریکی چھا جاتی ہے غم کا بادل
ِگھر آتا ہے
ہر گام پہ پاؤں پھسلتے ہیں آفات کے
جھکڑ چلتے ہیں
جب صبر کا دامن ہاتھوں سے رہ رہ کر
چھوٹا جاتا ہے
جب آنکھیں بھر بھر آتی ہیں اُمیدیں
ڈوبی جاتی ہیں
جب یاس کا دریا چڑھتا ہے دل اس میں
غوطے کھاتا ہے
جب ناؤ بھنْور میں گھرتی ہے جب موت
نظر میں پھرتی ہے
جب حیلے سب ہو چکتے ہیں انساں بے بس
ہو جاتا ہے
جب دم سینے میں گھُٹتا ہے جب دل میں
ہوکیں اٹھتی ہیں
جب ”جینا” کڑوا لگتا ہے،جب ”مرنا”
دل کو بھاتا ہے

جب بڑے بڑے جی چھوڑتے ہیں جاں دینے
کوسرپھوڑتے ہیں

اس وقت بس ایک ”مسلماں” ہے جو صبر
کی شان دکھاتاہے

یہ برکت سب ”اسلام” کی ہے تعلیم اس
رحمتِ عام کی ہے
جو ”نسخۂ تسکیں” وہ لایا دل مسلم
کا ٹھیراتا ہے
بے آس کی آس بن جاتا ہے
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو
سو بار
پاک محمدؐ مصطفی نبیوں کا سردار
(2)
ہمارے پیارے مقدس نبی ؐ کی تعلیم ہم
کو قطعی ترکِ دنیا پر مجبور نہیں کرتی اسلام ہم کو خالق و مخلوق ہر دو کے حقوق کی الگ
الگ بجا آوری کا حکم دیتا ہے اور دنیا میں رہ کر پھر دنیا سے الگ رہنا سکھاتا ہے۔ یہی
مذہب ہے جو فطرت کے مطابق ہے اور ہم کوکبھی بھی فطرت کے خلاف مجبور نہیں کرتا ۔بشر
بن کر ہی خدا کو ڈھونڈنا یہی نمونہ بانیؐ اسلام نے دکھایا ہے جس نے سب ناقابل عمل سختیوں
سے ہم کو بچا لیا ۔نیز مسلمان دنیوی امور سے متعلقہ انعامات سے ہر جائز نفع اٹھانے
کے ویسے ہی حقدار ہوتے ہیں جیسا کہ دوسری قومیں مگر مقصود اصلی کو نہیں ضائع ہونے دیتے۔مبارکہ
جب دنیا میں بیداری والے دین سے غافل
سوتے ہیں
جب اس کے پیچھے پڑتے ہیں تو اُس کو
بالکل کھوتے ہیں
پر شاہِ دوعالم کے پیرو کونین کے وارث
بنتے ہیں
موجود ہے جو ”مقصود” ہے جو دونوں
ہی حاصل ہوتے ہیں
جاری سب کاروبارِ جہاں، پر دل میں خیالِ
یار نہاں
دن کاموں میں کٹ جاتا ہے راتوں کو اُٹھ
کر روتے ہیں
دنیا سے الگ دنیا کے مکیں ملتے ہیں
مگر گھلتے یہ نہیں
دنیا تو ان کی ہوتی ہے یہ آپ خدا کے
ہوتے ہیں
سامانِ معیشت بھی کرنا پھر جیتے جی
اس پر مرنا
حق نفس کا بھی کرتے ہیں ادا ، بیج الفت
کے بھی بوتے ہیں
خالق مٹی سے گھڑتا ہے، مٹی میں رہنا
پڑتا ہے
یہ خاک ہی کرتی پاک بھی ہے مل مل کے
یہیں دل دھوتے ہیں
لاثانی اُسوہ احمد کا یہ سیدھی راہ
دکھاتا ہے
بے دنیا چھوڑے مسلم کو دنیا میں خدا
مل جاتا ہے
ہر طرح کرم فرماتا ہے
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو
سو بار
پاک محمد ؐمصطفی نبیوں کا سردار
(3)
مندرجہ بالا ہر دو بند تو عام احسانوں
کے ذکر پر مشتمل تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ہر ایک حقیقی فیض
یاب ہونے والا اور آپ کا سچا پیرو حاصل اور محسوس کرتا ہے مگر ذیل کا بند محض رحمۃ
للعالمین کے” عورت کی ہستی ”پر گراں بار احسان کی یاد دہانی کے لئے ہے اور صرف ہماری
صنف سے متعلق ہے۔مبارکہ
رکھ پیش نظر وہ وقت بہن، جب زندہ گاڑی
جاتی تھی
گھر کی دیواریں روتی تھیں ، جب دنیا
میں تو آتی تھی
جب باپ کی جھوٹی غیرت کا، خوں جوش میں
آنے لگتا تھا
جس طرح جنا ہے سانپ کوئی، یوں ماں تیری
گھبراتی تھی
یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خون
بہاتے تھے
جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب
آتی تھی
کیا تیری قدروقیمت تھی! کچھ سوچ تری
کیا عزت تھی
!
تھا موت سے بد تر وہ جینا قسمت سے اگر
بچ جاتی تھی
عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر
سارے جبر روا
یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا، تا مرگ سزائیں
پاتی تھی
گویا تو کنکر پتھر تھی، احساس نہ تھا
جذبات نہ تھے
توہین وہ اپنی یاد تو کر! ، ترکہ میں
بانٹی جاتی تھی
وہ رحمت عالم آتا ہے’ تیرا حامی ہو
جاتا ہے
تو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے
دلواتا ہے
ان ظلموں سے چھڑواتا ہے
بھیج درود اس مُحسن پر تو دن میں سو
سو بار
پاک محمدؐ مصطفی نبیوں کا سردار
صلِّ علٰی محمَّدٍ
الفضل ”خاتم النبیین نمبر مورخہ12جون 1928ء صفحہ 71۔72

اپنا تبصرہ بھیجیں