34۔ بہتان پر صبر

درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ64۔65

34۔ بہتان پر صبر

ایک یادگار نظم
محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور
احمدصاحب
1939 ء میں
خاکسار مالیر کوٹلہ ایک ہفتہ کے لئے گیا ۔اس وقت خاکسار کے رشتہ کی بات محمودہ بیگم
سے چل رہی تھی۔ میں نے اپنی آٹو گراف سیدہ بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم کو
دی کہ کوئی نصیحت لکھ دیں۔ دوسرے روز خاکسار نے ان سے پوچھا کہ لکھ دیا ہے تو فرمایا
ابھی ٹھہرو دعا کر رہی ہوں۔ چنانچہ دو دفعہ اسی طرح فرمایا تو پھر خاکسار کی واپسی
کے دن سے ایک روز قبل مجھے بلا کر آٹوگراف دی اور کہا کے تمہارے لئے دعا بہت کی ہے
اور یہ اشعار میرے دل میں آئے  ہیں جو لکھ دئے
ہیں ،جن کا عنوان تھا ” بہتان پر صبر” خاکسا رذیل میں ان کا عکس شائع کر رہا ہے تاکہ
احباب جماعت اس اصول پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو پر سکون اور کامیاب بناسکیں اور
اللہ تعالی کی حفاظت میں رہیں۔آمین ثم آمین
صبر ہر رنگ میں اچھا ہے پر اے مرد عقیل
غلط الزام پہ ہو صبر تو ہے صبر جمیل
لوگ سمجھیں گے تو سمجھیں یہ خطا کا
ہے ثبوت
تم سمجھ لو کہ ہے سو بات کی اک بات
”سکوت
شعلہ جو دل میں بھڑکتا ہے دبا دو اس
کو
جھوٹ پر آگ جو لگتی ہے بجھا دو اس کو
ضبط کی شان کچھ اس طرح نمایاں ہو جائے
آپ سے آپ ہی دشمن بھی ہراساں ہو جائے
آج جو تلخ ہے بے شک وہی کل شیریں ہے
سچ کسی نے ہے کہا ”صبر کا پھل شیریں
ہے
کیا یہ بہتر نہیں مولا ترا ناصر ہو
جائے
نامرادئ عدو خلق پہ ظاہر ہو جائے
صبر کر صبر کہ اللہ کی نصرت آئے
تیری کچلی ہوئی غیرت پہ وہ غیرت کھائے
وہ لڑے تیرے لئے اور تو آزاد رہے
خوب نکتہ ہے یہ اللہ کرے یاد رہے
لبِ خاموش کی خاطر ہی وہ لب کھولتا
ہے
جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا
ہے
مبارکہ، 3جون 1939ء
نوٹ: ماہنامہ خالد ربوہ ماہ نومبر
1957ء میں یہ نظم کچھ اختلاف سے شائع ہوئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں