17۔ ظہور مھدیٔ آخر زماں ہے

کلام
محمود صفحہ33۔34

17۔ ظہور مھدیٔ آخر زماں ہے

ظہور مھدیٔ آخر زماں ہے
سنبھل جاؤ کہ وقتِ امتحاں ہے
محمدؐ میرے تن میں مثلِ جاں ہے
یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے
گیا اسلام سے وقتِ خزاں ہے
ہوئی پیدا بہارِ جاوداں ہے
اگر پوچھے کوئی عیسیٰؑ کہاں ہے
تو کہدو اس کا مسکن قادیاں ہے
ہر اک دشمن بھی اب رطب اللّساں ہے
مرے احمد کی وہ شیریں زباں ہے
مقدر اپنے حق میں عزّ و شاں ہے
جو ذلت ہے نصیبِ دشمناں ہے
مسیحاؑئے زما ں کا یاں مکاں ہے
زمینِ قادیان دارالاماں ہے
فدا تجھ پہ مسیؑحا میری جاں ہے
کہ تو ہم بے کسوں کا پاسباں ہے
مسیؑحا سے کوئی کہہ دو یہ جاکر
مریضِ عشق تیرا نیم جاں ہے
نہ پھولو دوستو دنیائے دوں پر
کہ اس کہ دوستی میں بھی زیاں ہے
دورنگی سے ہمیں ہے سخت نفرت
جو دل میں ہے جبیں سے بھی عیاں ہے
ترے اس حال بد کو دیکھ کر قوم
جگر ٹکڑے ہے اور دل خوں فشاں ہے
جسے کہتی ہے دنیا سنگِ پارس
مسیؑحا کا وہ سنگِ آستاں ہے
دیا ہے رہنما بڑھ کر خضرؑ سے
خدا بھی ہم پہ کیسا مہرباں ہے
فلک سے تامنارہ آئیں عیسیٰؑ
مگر آگے تلاشِ نرد باں ہے
ترقی احمدی فرقہ کی دیکھے
بٹالہ میں جو اک پیرِ مغاں ہے
نہ یوں حملہ کریں اسلام پر لوگ
ہمارے منہ میں بھی آخر زباں ہے
مخالف اپنے ہیں گو زور پر آج
مگر ان سے قوی تر پاسباں ہے
مَرا ڈوئی دمِ معجز نما سے
یہ عیسیٰؑ کی صداقت کا نشاں ہے
مسلمانوں کی بدحالی کے غم میں
دھرا سینہ پر اک سنگِ گراں ہے
پریشاں کیوں نہ ہوں دشمن، مسیحا!
ظفر کی تیرے ہاتھوں میں عناں ہے
نہیں دنیا میں جس کا جوڑ کوئی
ھمارا پیشوا وہ پہلواں ہے
کرے قرآن پر چشمک حسد سے
کہاں دشمن میں یہ تاب و تواں ہے
نہیں دنیا کی خواہش ہم کو ہرگز
فدا دیں پر ہی اپنا مال و جاں ہے
نہیں اسلام کو کچھ خوف محمود
کہ اس گلشن کا احمدؐ باغباں ہے
اخبار بدر جلد 6۔ 26دسمبر 1907ء

اپنا تبصرہ بھیجیں