13۔ یوں الگ گوشۂ ویراں میں جو چھوڑا ہم کو

کلام
محمود صفحہ25۔26

13۔ یوں الگ گوشۂ ویراں میں جو چھوڑا ہم
کو

یوں الگ گوشۂ ویراں میں جو چھوڑا ہم
کو
نہیں معلوم کہ کیا قوم نے سمجھا ہم
کو
کل تلک تو یہ نہ چھوڑے گا کہیں کا ہم
کو
آج ہی سے جو لگا ہے غم ِفردا ہم کو
ہے خدا کی ہی عنایت پہ بھروسہ ہم کو
نہ عبادت کا نہ ہے زہد کا دعویٰ ہم
کو
دردِ الفت میں مزہ آتا ہے ایسا ہم
کو
کہ شفایابی کی خواہش نہیں اصلاہم کو
تجھ پہ رحمت ہو خدا کی کہ مسیؑحا تو
نے
رشتۂ الفت و وحدت میں ہے باندھا ہم
کو
اپنا چہرہ کہیں دکھلائے وہ رب العزت
مدتوں سے ہے یہی دل میں تمنا ہم کو
گالیاں دشمنِ دیں ہم کو جو دیتے ہیں
تو دیں
کام لیں صبر و تحمل سے ہے زیبا ہم کو
کچھ نہیں فکر ، لگائی ہے خدا سےجب لَو
گو سمجھتا ہے برا اپنا پرایا ہم کو
ایک تسمہ کی بھی حاجت ہو تو مانگو مجھ
سے
ہے ہمیشہ سے اس یار کا ایما ہم کو
زخم ِدل زخمِ جگر ہنستے ہیں کِھل کِھل
کر کیوں
حالتِ قوم پہ آتا ہے جو رونا ہم کو
کہیں موسیٰ ؑ کی طرح حشر میں بیہوش
نہ ہوں
لگ رہا ہے اسی عالَم میں یہ دھڑکا ہم
کو
ایک دم کے لیے بھی یاد سے کیوں تُو
اُترے
اور محبوب کہاں تجھ سا ملے گا ہم کو
تجھ پہ ہم کیوں نہ مریں اے مرے پیارے
کہ ہے تُو
دولت و آبرو و جان سے پیارا ہم کو
آدمی کیا ہے تواضع کی نہ عادت ہو جسے
سخت لگتا ہے برا کِبر کا پُتلا ہم کو
دشمنِ دین درندوں سے ہیں بڑھ کر خونخوار
چھوڑیو مت مِرے مولیٰ کبھی تنہا ہم
کو
دیکھ کر حالتِ دیں خونِ جگر کھاتے ہیں
مر ہی جائیں جو نہ ہو تیرا سہارا ہم
کو
دل میں آ آ کے تیری یاد نے اے رب
ِوَدُود
بارہا پہروں تلک خون رُلایا ہم کو
چونکہ توحید پہ ہے زور دیا ہم نے آج
اپنے بیگانے نے چھوڑا ہے اکیلا ہم کو
حق کو کڑواہی بتاتے چلے آئے ہیں لوگ
یہ نئی بات ہے لگتا ہے وہ میٹھا ہم
کو
جوشِ الفت میں یہ لکھی ہے غزل اے محمود
کچھ ستائیش کی تمنا نہیں اصلا ہم کو
اخبار بدر ۔ جلد6۔23مئی 1907ء

اپنا تبصرہ بھیجیں