84۔ ہے زمیں پرسرمِرا لیکن وہی مسجود ہے

کلام
محمود صفحہ137

84۔ ہے زمیں پرسرمِرا لیکن وہی مسجود ہے

ہے زمیں پرسرمِرا لیکن وہی مسجود ہے
آنکھ سے اوجھل ہے گو دل میں وہی موجود
ہے
مطلقاً غیر ازفنا راہِ بقا مسدود ہے
مٹ گیا جو راہ میں اس کی وہی موجود
ہے
سوچتا کوئی نہیں فردوس کیوں مقصود ہے
آرزو باقی ہے لیکن مدعا مفقود ہے
شاید اس کے دل میں آیا میری جانب سے
غبار
آسماں چاروں طرف سے کیوں غبارآلود ہے
وہ مرا تا ابد میں ہوں اسی کا از ازل
مجھ کو کیا حور و جناں سے وہ مرامقصود
ہے
احتیاج اک نقص ہے جلوہ گری ہےاک کمال
مقتضائے حسن سر ِّشاہد و مشہود ہے
بے ہنر کو پوچھتا ہی کون ہے دنیا میں
آج
ہے کوئی تو تجھ میں جوہر تو اگر محسود
ہے
مانگ پر ہوتی ہے پیداوار چونکہ وہ نہیں
جنسِ تقویٰ اس لئے دنیا سے اب مفقود
ہے
کیوں نہ پاؤں اُس کی درگہ سے جزائے
بے حساب
ہے مری نیت تو بے حد گو عمل محدود ہے
دل کی حالت پر کسی بندے کو ہو کیا اطلاع
بس وہی محمود ہے جو اس کے ہاں محمود
ہے
مدعا ہے میری ہستی کا کہ مانگوں باربار
مقتضا اُن کی طبیعت کا سخا و جُودہے
باپ کی سنت کو چھوڑا ہو گیا صیدِ ہوا
ابنِ آدم بارگہ سے اس لئے مَطرود ہے
جب تلک تدبیر پنجہ کش نہ ہو تقدیر سے
آرزو بے فائدہ ہے التجا بے سود ہے
عشق وبیکاری اکٹھے ہو نہیں سکتے کبھی
عرصۂ سعیِ محباں تا ابد ممدودہے
ازاحمد جنتری 1928ء مطبوعہ 1927ء

اپنا تبصرہ بھیجیں