83۔ تیرے در پر ہی میری جان نکلے

کلام
محمود صفحہ136

83۔ تیرے در پر ہی میری جان نکلے

تیرے در پر ہی میری جان نکلے
خدایا یہ مِرا ارمان نکلے
نکل جائے مِری جاں خواہ تن سے
نہ دل سے پَر مِرے ایمان نکلے
ہوں اک عرصہ سے خواہانِ اجازت
مِرے بارے میں بھی فرمان نکلے
مِرے پاس آکے للہ بیٹھ جاؤ
کہ پہلو سے مِرے شیطان نکلے
سمجھتا تھا ارادے ساتھ دیں گے
مگر وُہ بھی یونہی مہمان نکلے
مجھے سب رنج و کلفت بھول جائے
جو تیری دید کا ارمان نکلے
گنوا دی قِشر کی خواہش میں سب عمر
دریغا!ہم بہت نادان نکلے
ہؤا کیا سیرِ عالم کا نتیجہ
پریشاں آئے تھے حیران نکلے
تِرے ہاتھوں سے اے نفسِ دَنِی سن
جنھیں دیکھا وہی نالان نکلے
لُٹا دوں جان و مال و آبرو سب
جو میرے گھر کبھی تُو آن نکلے
نکلتی ہے مِری جاں تو نِکل جائے
نہ دل سے پر تِرا پیکان نکلے
نہ پایا دوسرا تجھ سا کوئی بھی
زمین و آسماں سب چھان نکلے
غضب کا ہے تِرا یہ حسنِ مخفی
جنھیں دیکھا ترے خواہان نکلے
تری نسبت سنے تھے جس قدر عیب
وہ سارے جھوٹ اور بہتان نکلے
کبھی نکلے نہ دل سے یاد تیری
کبھی سرسے نہ تیرا دھیان نکلے
نہ کی ہم نے کمی کچھ مانگنے میں
مگر تم بخششوں کی کان نکلے
سمجھتا تھا کہ ہوں صیدِ مصائب
مگر سوچا تو سب احسان نکلے
ازاحمدیہ جنتری 1928ء مطبوعہ 1927ء

اپنا تبصرہ بھیجیں