96۔ میری نہیں زبان جو اس کی زباں نہیں

کلام
محمود صفحہ156

96۔ میری نہیں زبان جو اس کی زباں نہیں

میری نہیں زبان جو اس کی زباں نہیں
میرا نہیں وہ دل کہ جو اس کا مکاں نہیں
ہے دل میں عشق پرمرے منہ میں زباں نہیں
نالے نہیں ہیں،آہیں نہیں ہیں ،فغاں
نہیں
فرقت میں تیری حالِ دل زار کیا کہیں
وہ آگ لگ رہی ہے کہ جس میں دھواں نہیں
قرباں ہوں زخم دل پہ کہ سب حال کہہ
دیا
شکوہ کا حرف کوئی  مگردرمیاں نہیں
کیوں چھوڑتا ہے دل مجھے اس کی تلاش
میں
آوارگی سے فائدہ کیا ،وہ کہاں نہیں
مطلوب ہے فقط مجھے خوشنودئِ مزاج
امید حوروخواہشِ باغِ جناں نہیں
جلوہ ہے ذرہ ذرہ میں دلبرکے حسن کا
سارے مکاں اسی کے ہیں وہ لا مکاں نہیں
مشتاق ہے جہاں کہ سنے معرفت کی بات
لیکن حیا وشرم سے چلتی زباں نہیں
یارب تری مدد ہوتو اصلاح ِ خَلق ہو
اٹھنے کا ورنہ  مجھ سے یہ بارِ گراں نہیں
کھویا گیا  خود آپ کسی کی تلاش میں
کچھ بھی خبر نہیں کہ کہاں ہوں کہاں
نہیں
اے دوست تیرا عشق ہی کچھ خام ہوتوہو
یہ تو نہیں کہ یار ترا مہرباں نہیں
ایمان جس کے ساتھ نہ  ہوقوتِ عمل
کشتی ہے جس کہ ساتھ کوئی بادباں نہیں
اخبار الفضل جلد 24 ۔ 31دسمبر 1936ء

اپنا تبصرہ بھیجیں