114۔ وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے

کلام
محمود صفحہ175

114۔ وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے

وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے
وہ دل ہی کیا جو خوف سے میدان ہار دے
اک پاک صاف دل مجھے پروردگار دے
اور اس میں عکس حسنِ ازل کا اتار دے
وہ سیم تن جو خواب میں ہی مجھ کو پیار
دے
دل کیا ہے بندہ جان کی بازی بھی ہار
دے
افسردگی سے دل مرا مرجھا رہا ہےآج
اے چشمۂ فیوض نئی اک بہار دے
دنیا کا غم اِدھر ہےاُدھرآخرت کا غم
یہ بوجھ میرے دل سے الٰہی اتاردے
مسند کی آرزو نہیں بس جوتیوں کے پاس
درگہ میں اپنی مجھ کو بھی اک بار،بَار
دے
گزری ہے ساری عمرگناہوں میں اے خدا
کیا پیشکش حضور میں یہ شرمساردے
وحشت سے پھٹ رہا ہے مراسرمرے خدا
اس بے قرار دل کوذرا توقراردے
 توبارگاہ حسن
ہے میں ہوں گدائے حسن
مانگوں کا باربار میں،تو بار بار دے
دن بھی اسی کے راتیں بھی اس کی جوخوش
نصیب
آقا کے در پہ عمر کو اپنی گزار دے
دل چاہتا ہے جان ہو اسلام پر نثار
توفیق ا س کی اے مرے پروردگار دے
میرے دل و دماغ پہ چھا جا او خوبرو
اورماسوا کا خیال بھی دل سے اتار دے
ممکن نہیں کہ چین ملے وصل کے سوا
فرقت میں کوئی دل کو تسلی ہزار دے
کیسے اٹھے وہ بوجھ جو لاکھوں پہ بار
ہو
جب غم دیا ہے ساتھ کوئی غمگسار دے
ہے سب جہاں سے جنگ سہیڑی تیرے لیے
اب یہ نہ ہو کہ تُوہمیں دل سے اتار
دے
تنگ آگیا ہوں نفس کے ہاتھوں سے میری
جاں
جلدآ اورآکے اس مرے دشمن کو مار دے
بچھڑے ہوؤں کوجنت ِفردوس میں ملا
جسرِصراط سے بہ سہولت گزار دے
اخبار الفضل جلد 32 ۔ 27جولائی 1944ء

اپنا تبصرہ بھیجیں