129۔ مرادیں لوٹ لیں دیوانگی نے

کلام
محمود صفحہ192-193

129۔ مرادیں لوٹ لیں دیوانگی نے

مرادیں لوٹ لیں دیوانگی نے
نہ دیکھی کامیابی آگہی نے
مری جانب یونہی دیکھا کسی نے
نظر آنے لگے ہرجا دفینے
مزاجِ یار کو برہم کیا ہے
مری الفت ،مری دلبستگی نے
زمین وآسماں کی بادشاہت
عطا کی مجھ کو تیری بندگی نے
جدائی کا خیال آیا جو دل میں
لگے آنے پسینوں پر پسینے
کنارہ آہی جائے گا کبھی تو
چلائے جارہےہیں ہم سفینے
اسی کےدرپہ اب دھونی رمادوں
کیا ہےفیصلہ یہ میرے جی نے
جو میرا تھا اب اس کا ہوگیا ہے
مرے دل سے کِیا یہ کیا کسی نے
جدائی میں تری تڑپا ہوں برسوں
یونہی گزرے ہیں ہفتے اور مہینے
وہ مہ رخ آگیا خود پاس میرے
لگائے چاند مجھ کو بے بسی نے
وہ آنکھیں  جو ہوئیں الفت میں بے نور
بنیں وہ اُس کی الفت کے نگینے
اُسی کا فضل ڈھانپے گا مرا ستر
نہ کام آئیں گے پشمینے مرینے
پرستاران زر یہ تو بتاؤ
غریبوں کو بھی پوچھا ہے کسی نے؟
کنوئیں جھانکا کیا ہوں عمر بھر میں
ڈبویا مجھ کو دل کی دوستی نے
انھیں ٹوٹا ہی سمجھو ہر گھڑی تم
وہ دل جو بن رہے ہیں آبگینے
خدا را اس کو رہنے دیں سلامت
یہ دل مجھ کو دیا تھا آپ ہی نے
علامت کفر کی ہے تنگئی نفس
مگر اسلام سے کھلتے ہیں سینے
وہی ہیں غوطہ خور بحر ہستی
دُرَر سے ہیں بھرے جن کے سفینے
مہاجر بننے والو یہ بھی سوچا
کہ پیچھے چھوڑے جاتے  ہو مدینے
اخبار الفضل جلد 2 ۔ 12مئی  1948ء۔
لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں