128۔ نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں ساقی

کلام
محمود صفحہ191

128۔ نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں
ساقی

یہ غزل جو درحقیقیت پندرہ سولہ سال پہلے لکھی گئی تھی مگر کہیں گم ہو گئی۔
اب یاد سے کام لے کر کچھ نئے شعر کہہ کر مکمل ہوئی ہے۔       (مرزا محمود احمد)
نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں
ساقی
کہ دل میں جوش وحشت ہے تو سر میں ہے
جنوں ساقی
جیوں  تو تیری خوشنودی کی خاطر ہی جیوں ساقی
مروں تو تیرے دروازے کے آگے ہی مروں
ساقی
پلائے تو اگر مجھ کو تو میں اتنی پیوں
ساقی
رہوں تا حشر قدموں پر ترے میں سر نگوں
ساقی
تری دنیا میں فرزا نے بہت سے پائے جاتے
ہیں
مجھے تو بخش دے اپنی محبت کا جنوں ساقی
سوا اک تیرے میخانے کے سب مے خانے خالی
ہیں
پلائے گر نہ تو مجھ کو تو پھر میں کیا
کروں ساقی
تجھے معلوم ہے کہ جو کچھ مرے دل کی
تمنا ہے
مرا ہر ذرہ گویا ہے زباں سے کیا کہوں
ساقی
وہ کیا صورت ہے جس سے میں نگاہ ِلطف
کو پاؤں
چھوؤں دامن کو تیرے یاترے پاؤں پڑوں
ساقی
مجھے قیدِ محبت لاکھ آزادی سے اچھی
ہے
کچھ ایسا کر کہ پابند سلاسل ہی رہوں
ساقی
ترے در کی گدائی سے بڑا ہے کونسا درجہ
مجھے گر بادشاہت بھی ملے تو میں نہ
لوں ساقی
فدا ہوتے ہیں پروانے اگر شمع ِمنور
پر
تو تیرے روئے روشن پر نہ میں کیوں جان
دوں ساقی
نہ صورت امن کی مسجد میں پیدا ہے نہ
مندر میں
زمانہ میں یہ کیسا ہو رہا ہے کشت و
خوں ساقی
شھیدان محبت سے ہی میخانے کی رونق ہے
چھلکتا ہے  ترے پیمانہ میں ان کا ہی خون ساقی
اخبار الفضل جلد 2 ۔ 5مئی 1948ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں