145۔ بتاؤں تمھیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں

کلام
محمود صفحہ209

145۔ بتاؤں تمھیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں

بتاؤں تمھیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں
ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں
میں اپنے سیاہ خانۂ دل کی خاطر
وفاؤں کے خالق !وفا چاہتا ہوں
جو پھر سے ہرا کردے ہر خشک پودا
چمن کے لیے وہ صبا چاہتا ہوں
مجھے بیر ہرگزنہیں ہے کسی سے
میں دنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں
وہی خاک جس سے بنا میرا پتلا
میں اس خاک کو دیکھنا چاہتا ہوں
نکالا مجھے جس نے میرے چمن سے
میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا
ہوں
مرے بال وپر میں وہ ہمت ہے پیدا
کہ لے کر قفس کو اڑا چاہتا ہوں
کبھی جس کو رشیوں نے منہ سے لگایا
وہی جام اب میں پیا چاہتا ہوں
رقیبوں کو آرام وراحت کی خواہش
مگر میں تو کرب و بلا چاہتا ہوں
دکھائے جو ہر دم ترا حسن مجھ کو
مری جاں !میں وہ آئنہ چاہتا ہوں
رسالہ مصباح ۔ماہ جنوری 1951ء

اپنا تبصرہ بھیجیں