148۔ عقبیٰ کو بھلایا ہے تُونے،تُواحمق ہے ہشیار نہیں

کلام
محمود صفحہ212۔213

148۔ عقبیٰ کو بھلایا ہے تُونے،تُواحمق ہے
ہشیار نہیں

عقبیٰ کو بھلایا ہے تُونے،تُواحمق ہے
ہشیار نہیں
یہ تیری ساری لساّنی بےکار ہے گر
کردار نہیں
اس یار کے درپر جانا کچھ مشکل نہیں
کچھ دشوار نہیں
اس طرف جو راہیں جاتی ہیں وہ ہرگز
ناہموار نہیں
میں اس کا ہاتھ پکڑ کر نہُ افلاک
سے اونچا اڑتا ہوں
یہ میرے دشمن کا کوئی دربار نہیں
سرکار نہیں
وہ خاک سے پیدا کرتا ہے وہ مردے
زندہ کرتا ہے
جو اس کی راہ میں مرتا ہے وہ زندہ
ہے مردار نہیں
تم انسانوں کے چیلے ہو میں اس کے
در کا ریزہ ہوں
میں عالم ہوں میں فاضل ہوں پر سر
پہ مرے دستار نہیں
جادو ہے میری نظروں میں تاثیر ہے
میری باتوں میں
میں سب دنیا کا فاتح ہوں ہاتھوں
میں گر تلوار نہیں
میں تیز قدم ہوں کاموں میں بجلی ہے
مری رفتار نہیں
میں مظلوموں کی ڈھارس ہوں مرہم ہے
مری گفتار نہیں
ہوں صدر کے شاہ کوئی بھی ہوں میں
ان سے دب کر کیوں بیٹھوں
سرکار مری ہے مدینہ میں یہ لوگ مری
سرکار نہیں
 تو اس کے پیارے ہاتھوں کو اپنی گردن کا طوق بنا
کیا تونے گلے میں ڈالا ہےذوالنار
ہے یہ زنار نہیں
اسلام پہ آفت آئی ہے لیکن تو غافل
بیٹھا ہے
اٹھ دشمن پر یہ ثابت کر تو زندہ ہے
مردار نہیں
جن معنوں میں وہ کہتا ہےقہاّر بھی
ہے جباّر بھی ہے
جن معنوں میں تم کہتے ہو قہاّر
نہیں  جباّر نہیں
دوزخ میں جلنا سخت برا پر یہ بھی
کوئی بات نہ تھی
سو عیب کا اس میں عیب ہے یہ گفتار
نہیں دیدار نہیں
کچھ اس میں کشش ہی ایسی ہے دل ہاتھ
سے نکلا جاتا ہے
ورنہ میں اپنی جان سے کچھ ایسا بھی
تو بیزار نہیں
جاں میری گھٹتی جاتی ہے دل پارہ
پارہ ہوتا ہے
تم بیٹھے ہو چپ چاپ جو یوں کیا تم
میرے دلدار نہیں
میں تیرے فن کا شاہد ہوں تُومیری
کمزوری کا گواہ
تجھ سا بھی طبیب نہیں کوئی مجھ سا
بھی کوئی بیمار نہیں
وہ جو کچھ مجھ سے کہتا ہے پھر میں
جو اس سے کہتا ہوں
اک راز محبت ہے جس کا اعلان نہیں
اظہار نہیں
میں ہر صورت سے اچھا ہوں اک دل میں
سوزش رہتی ہے
گرعشق کوئی آزار نہیں ،مجھ کو کوئی
بھی آزار نہیں
کیا اس سے بڑھ کر راحت ہے جاں نکلے
تیرے ہاتھوں میں
تو جان کا لینے والابن مجھ کو تو
کوئی انکار نہیں
اخبار الفضل جلد 5 ۔ 3اپریل 1951ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں