159۔ قید کافی ہے فقط اس حسنِ عالم گیر کی

کلام
محمود صفحہ224

159۔ قید
کافی ہے فقط اس حسنِ عالم گیر کی

قید کافی ہے فقط اس حسنِ عالم گیر کی
تیرے عاشق کو بھلا حاجت ہی کیا زنجیر
کی
وہ کہاں اور ہم کہاں پر رحم آڑے آگیا
رہ گئی عزت ہمارے نالۂ دل گیر کی
تب کہیں جا کر ہوا حاصل وِصالِ ذاتِ
پاک
مُدتوں میں نے پرستش کی تری تصویر کی
مجھ کو لڑنا ہی پڑا اَعداءِ کینہ توز
سے
جنگ آخر ہو گئی تدبیر سے تقدیر کی
جن کے سینوں میں نہ دل ہوں بلکہ پتھر
ہوں دھرے
کیاپہنچ ان تک ہمارے نالۂ دل گیر کی
صیدِ زخمی کی تڑپ میں تم نے پایا ہے
مزہ
ہے مرا دل جانتا لذت تمہارے تیر کی
مجھ کو رہتی ہے ہمیشہ اس کے ہاتھوں
کی تلاش
فکر رہتی ہے تجھے صبح و مسا کف گیر
کی
جستجوئے خس نہ کر تو دوسرے کی آنکھ
میں
فکر کر نادان اپنی آنکھ کے شہتیر کی
اخبار الفضل جلد 5 9اگست1951ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں