178۔ دلبر کے در پہ جیسے ہوجانا ہی چاہیئے

کلام
محمود صفحہ244

178۔ دلبر
کے در پہ جیسے ہوجانا ہی چاہیئے

دلبر
کے در پہ جیسے ہوجانا ہی چاہیئے
گر
ہوسکے تو حال سنانا ہی چاہیئے
بیکار
رکھ کے سینہ میں دل کیا کرونگا میں
آخر
کسی کے کام تو آنا ہی چاہیئے
رنگِ
وفا دکھاتے ہیں ادنیٰ وحوش بھی
غم
دوستوں کا کچھ تمھیں کھانا ہی چاہیئے
اس
سیہ روئی پہ شوقِ ملاقات ہے عبث
اس
ماہ رو کا رنگ چڑھانا ہی چاہیئے
بے
عیب چیز لیتے ہیں تحفہ میں خوبرو
داغ
دل اثیم مٹانا ہی چاہیئے
شر
و فساد ِ دہر بڑھا جارہا ہے آج
اس
کے مٹانے کو کوئی دانا ہی چاہیئے
ساتھی
بڑھیں گے تب کہ بڑھاؤ گے دوستی
دلِ
غیر کا بھی تم کو لبھانا چاہیئے
تعمیر
کعبہ کے لیےکوئی جگہ تو ہو
پہلے
صنم کدہ کو گرانا ہی چاہیئے
رونق
مکاں کی ہوتی ہے اس کے مکین سے
اس
دلربا کو دل میں بسانا ہی چاہیئے
دل
ہے شکارِ حرص و ہوا و ہوس ہوا
پنجہ
سے ان کے اس کو چھڑانا ہی چاہیئے
اگست 1954ء ۔ ناصرآباد۔ سندھ
 اخبار الفضل جلد 8۔ 12اکتوبر1954ء۔
لاہور ۔ پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں