187۔ میرے آقا! پیش ہے یہ حاصلِ شام و سحر

کلام
محمود صفحہ258

187۔ میرے
آقا! پیش ہے یہ حاصلِ شام و سحر

میرے
آقا! پیش ہے یہ حاصلِ شام و سحر
سینۂ
صافی کی آہیں آنکھ کے لعل و گُہر
مَیں
نے سمجھا تھا جوانی میں گزر جاؤں گا پار
اب
جو دیکھا سامنے ہیں پھر وہی خوف و خطر
کثرتِ
آثام سے ہے خم ہوئی میری کمر
اب
یہی اس کا مداوا ہے کہ کر دیں درگزر
آپ
تو ہیں مالکِ ارض و سما اے میری جاں
آپ
کا خادم مگر پھرتا ہے کیوں یوں در بدر
بے
سروساماں ہوں اس دنیا میں اے میرے خدا
اپنی
جنت میں بنا دیں آپ میرا ایک گھر
آدمِ
اول سے لے کر وہ ہے زندہ آج تک
ایسی
طاقت دے کچل ڈالوں میں اب شیطاں کا سر
مومنِ
کامل کا گھر ہے جنتِ اعراف میں
اور
دوزخ کا مکیں ہے جو بنا ہے
مَن کَفَر
وہ
بھی اوجھل ہے مری آنکھوں سے جو ہے سامنے
ہے
ترے علمِ ازل میں جو ہے غائب مستَتر
میرے
ہاتھوں میں نہیں ہے نیک ہو یا بد ہو وہ
مِلک
میں تیری ہے یا رب خیر ہو وہ یا کہ شر
آج
سب مسلم خواتیں کی ہیں عریاں زینتیں
تُو
نے فرمایا تھا ہے پردے سے باہر
مَا ظَھَر
سایۂ
کفار سے رکھیو مجھے باہر ہمیش
اے
مرے قدوس! اے میرے ملیکِ بحرو بر
لاکھ
حملہ کن ہو مجھ پر فتنۂ زندیقیت
بیچ
میں آ جائیو بن جائیو میری سِپر
ہیں
ترے بندے مگر ہاتھوں کی طاقت سلب ہے
کفر
کا خیمہ لگا ہے قریہ قریہ گھر بہ گھر
جن
کو حاصل تھا تقرب وہ ہیں اب معتوبِ دہر
اور
ہیں مسند پہ بیٹھے جو ہیں خچر اور خر
اخبار الفضل جلد11۔ 31 دسمبر 1957ء ربوہ۔ پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں